Please Wait
11877
حدیثوں کی قابل اعتبار کتابوں میں اس قسم کی کوئی روایت نہیں ہے، حتی کہ ہم نے اس کے مشابہ کوئی روایت کتب روایی میں نہیں پائی۔ اس کے علاوہ اس روایت نما مطلب کا مضمون بھی کئی جہات سے قابل تنقید ہے:
۱۔ جرم اور اس کی توبہ کی کیفیت میں عدم تناسب۔
۲۔ اعمال میں نیت کے موضوع کو مدنظر نہ رکھنا۔
۳۔ اس مطلب کا حضرت سجاد{ع} اور حضرت زینب{ع} کے مقام و منزلت کے متناسب نہ ہونا۔
لوگوں کے درمیان جو چیزیں معروف و مشہور ہیں ، ان کی تحقیق کے بعد کبھی ہمیں ایسے مطالب ملتے ہیں کہ غلطی سے انہیں ائمہ معصومین{ع} سے نسبت دے کر ان کی احادیث شمار کیے جاتے ہیں۔
نماز غفیلہ ایک مستحب نماز ہے، اور اس کے مستحب ہونے کے بارے میں ائمہ اطہار{ع} سے کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں[1]، اسی وجہ سے عام فقہا نے اس کے مستحب ہونے کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے[2]۔
لیکن اس نماز کی فضیلت بیان کرنے کے ضمن میں جو مطلب سوال میں ذکر کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ قابل غور ہے کہ اس قسم کا کوئی مطلب ، حدیث کی قابل اعتبار کتابوں میں موجود نہیں ہے اور حتی کہ اس کے مشابہ بھی کوئی مطلب کہیں نہیں پایا گیا ہے۔
اس سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ یہ مطلب کسی حدیث کی کتاب میں موجود ہے یا نہیں ، اس روایت نما مطلب کا مضمون بھی کئی لحاظ سے قابل تنقید ہے:
۱۔ جرم اور اس کے لیے توبہ کی کیفیت میں عدم تناسب:
عقلاً اور شرعی طور پر ایک قابل قبول مسئلہ جرم و جزا کا تناسب اور جرم کا اس کی توبہ سے تناسب ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی نے کسی شخص کا مال چرایا ہو، جیسا کہ شرح میں بھی اس کی صراحت کی گئی ہے، کہ اس کی توبہ یہ ہے کہ مال کو اس کے مالک کو لوٹا دیا جائے اور جس طرح ممکن ہو سکے اس کی رضامندی حاصل کی جائے۔ اگر کسی کی غیبت کی گئی ہے تو، اس کی توبہ یہ ہے کہ اس شخص کو اس غیبت کے بارے میں آگاہ کر کے اس سے معافی مانگی جائے یا اس کے لیے خدا سے خیر و مغفرت کی دعا کی جائے۔ اگر کسی کی بے احترامی کی گئی ہے، تو ا س گناہ کبیرہ کی توبہ اس کی عزت و آبرو کو بحال کرنا ہے، اس سلسلہ مِن اس کے علاوہ بہت سے مطالب بیان کیے جا سکتے ہیں، لیکن بہت سے مواقع پر خداوندمتعال ایک معمولی کام کی وجہ سے بعض گناہان کبیرہ کی سزا سے چشم پوشی کرتا ہے۔ لیکن سوال میں بیان کے گیے موضوع میں عدم تناسب اس قدر نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی صحیح توجیہ نہیں کی جا سکتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص نے مسلمانوں کے امام اور نواسہ رسول{ص} کو قتل کیا ہو، اور اس کے بعد نماز غفیلہ پڑھنے سے اس کا یہ گناہ بخش دیا جائے اور اس کی توبہ قبول ہو جائے؛؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص نے شہر پیغمبر{ص} {مدینۃ النبی} کو مسمار کر کے لوگوں کے ناموس کو اپنے سپاہیوں کے لیے حلال قرار دیا ہو، یا خانہ خدا کو ویران کر دیا ہو اور نمازغفیلہ پڑھ کر اس کا یہ جرم ختم ہو جائے اور اس کی توبہ قبول ہو جائے؟؛
۲۔ اس روایت نما مطلب کے ضمن میں بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ، یزید نے اپنے اس منحوس عمل کے بارے میں توبہ کرنے کے لیے نماز غفیلہ پڑھنے کا بارہا قصد و ارادہ کیا تھا ، لیکن اپنے پیٹ میں درد کی وجہ سے اس کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔
موثق اور قابل قبول احادیث میں یوں آیا ہے کہ: نیک کاموں کے لیے انسان کی نیت، اس کام سے برتر ہے جسے وہ انجام دینا چاہتا ہے، یا انجام دیا ہو[3]، یعنی ممکن ہے انسان، کسی نیک کام کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا ہو، لیکن اس کام کو انجام دینے کی نیت کرے، اس قسم کی نیت اس عمل سے برتر ہے، جسے وہ انجام دینا چاہتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اس روایت کے مطابق ایک شخص اپنے گناہوں کے لیے توبہ کی نیت کرے، لیکن چونکہ ایک خاص عمل {نماز غفیلہ} بجالانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے، اس لیے اس کی باطنی نیت قبول نہیں ہوتی ہے اور یہ نیت اس کے نجات کا سبب نہیں بنتی ہے؟ جی ہاں، ممکن ہے بعض گناہ ایسے ہوں کہ انسان ان کا مرتکب ہونے کے بعد ظلمات کے ایک گڑھے میں پھنس جائے کہ توبہ کرنے کے ارادہ سے محروم ہو جائے۔ بعض روایتوں میں {جو اپنی جگہ پر قابل بحث ہیں} بعض گناہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جن کے مرتکب ہونے سے انسان توبہ کے ممکن ہونے سے محروم ہو جاتا ہے، ایسے گناہوں کے بارے میں ، "دین میں بدعت" کے بارے میں اشارہ کیا جا سکتا ہے،[4] ایک ایسی بدعت ، جس کا مرتکب نہ صرف ایک شخص ہوا ہے بلکہ اس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو راہ حق سے گمراہ کر کے ظلم و ظلمت کی وادی مین ڈال دیا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ، کیا بنیادی طور پر صحیح ہے کہ اس قسم کے شخص کی بیماری کی وجہ سے سرزنش کی جائے؟ جبکہ دوسرے فقہی احکام، جیسے: روزہ اور حج وغیرہ میں استطاعت{جسمانی طاقت} کو ان اہم واجبات کو انجام دینے کی شرط جانتے ہیں، اس طرح کہ اگر کوئی بیمار ہو اور روزے نہ رکھ سکے اور روزے اس کے لیے مضر ہوں، تو نہ صرف اس پر روزے واجب نہیں ہیں بلکہ اس حالت میں اس کے لیے روزے رکھنا حرام ہے، لیکن اس مستحبی عمل {نمازغفیلہ} کو انجام دینے میں ایک بیماری سے دوچار ہونے کی وجہ سے { جو اس کے اختیار میں بھی نہیں ہے} عفو و بخشش کا مستحق قرار نہیں پاتا ہے؟
۳۔ اس روایت نما مطلب میں حضرت زینب{ع} سے ایک بات کی نسبت دی گئی ہے، جو حضرت{ع} کی شان و مقام کے متناسب نہیں ہے، یعنی حضرت سجاد{ع} کے یزید سے یہ کہنے کے بعد کہ نماز غفیلہ پڑھنے سے امام حسین{ع} کے قتل کے بارے میں تیری توبہ قبول ہوگی، گویا، حضرت زینب{ع} امام سجاد{ع} سے اعتراض کرتے ہوئے فرماتی ہیں: کیا آپ اپنے باپ کے قاتل کو بخشنا چاہتے ہیں؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت زینب{ع} جیسی شخصیت جو خاندان وحی سے تعلق رکھتی ہیں اور امامت کے مقام و منزلت سے آگاہ ہیں، ایک عام شخص کے مانند معصوم امام پر اعتراض کریں؟؛ البتہ، کبھی امام معصوم{ع} کسی ولی خدا کے بارے میں کوئی ایسا عمل انجام دیتا ہے، کہ شائدبظاہر معلوم ہو جائے کہ دین و شریعت کے خلاف ہے، یہاں پر اعتراض و سوال کرنا نہ صرف حقیقت میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایک قابل قبول امر بھی ہے، من جملہ حضرت موسی{ع} کا حضرت خضر{ع} سے ان کے ساتھ سفر میں اعتراض کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ مثال کے طور پر جب حضرت خضر{ع} نے ایک لڑکے کا قتل کیا ، حضرت موسیٰ{ع} نے اس پر اعتراض کیا کہ کسی انسان کو بلاوجہ قتل نہیں کرنا چاہئیے، لیکن جس اعتراض کی حضرت زینب{ع} کی طرف نسبت دی جاتی ہے، وہ امام سجاد{ع} کے ایک ایسے کام پر اعتراض ہے کہ اولاً: ممکن ہے معصوم امام{ع} سے یہ توقع کی جائے کہ شقی ترین انسانوں کی، نیکی اور توبہ کی طرف راہ نمائی کریں اور ثانیاً: امام سجاد{ع} امام اور امام حسین{ع} کے ولی دم کے عنوان سے ان کے قاتل کو بخشنے کا حق رکھتے تھے۔
۴۔ ایک اور اعتراض جو بظاہر دکھائی دیتا ہے، وہ امام سجاد{ع} کا حضرت زینب{ع} کو دیا گیا جواب ہے کہ جس میں فرمایا: میں نے کہا نماز غفیلہ یزید کو نجات دے سکتی ہے، لیکن آپ فکرمند نہ ہونا، وہ کبھی اس نماز کو پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوگا؛ یہ ایک قسم کا مبالغہ لگتا ہے، کیونکہ ایک شخص امام معصوم{ع} سے ایک درخواست کرتا ہے تاکہ اس سے اسے عفو و بخشش ہو جائے اور امام معصوم{ع} اس کی عدم توانائی کے پیش نظر، اسے ایک ایسا کام انجام دینے کو کہتا ہے کہ جسے وہ ہرگز انجام نہیں دے سکتا ہے۔ حقیقت میں اگر یزید اپنے اعمال پر پشیمان ہو چکا ہوتا، تو امام سجاد{ع} ایک ایسا کام انجام دینے کی راہنمائی فرماتے، جسے وہ انجام دے کر نجات پا سکتا۔
اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یزید، امام حسین{ع} اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے پر کبھی پشیمان نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنے مظالم کو بعد والے سالوں کے دوران بھی واقعہ حرہ میں جاری رکھا اور امام{ر} کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی ایک ایسے شخص کے لیے توبہ کی راہنمائی فرماتے، اور لوگوں کے سامنے بری الزمہ قرار دیتے جو اپنے مظالم کو جاری رکھےہوئے تھا۔
[1]مرحوم سید بن طاوس در کتاب فلاح السائل چندین روایت در فضل این نماز آورده است. ملاحظہ ہو: فلاح السائل، ص 244، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، بلا تاریخ.
[2]فاضل لنکرانی، محمد،كتاب الصلاة،ص 54، قم، 1408ھ.
[3]َ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِه. رسول خدا {ص} نے فرمایا : " مومن کی نیت اس کے اعمال سے برتر ہے۔" ملاحظہ ہو: کلینی، محمد بن یعقوب،كافي، ج2، ص 84، دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1374ھ ش.
[4]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج69، ص 216، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.