Please Wait
7068
مسلمانوں کی ایک جماعت یه اعتقاد رکھتے هیں که جن مواقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو وحی نازل نهیں هوتی تھی، آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم اپنے اجتهاد سے فیصله کرتے تھے ـ البته ممکن تھا، ایسے مواقع پر پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے فیصلے اولویت یا مصلحت کے خلاف هوں ـ جو کچھـ "بدر" اور "تبوک" کے واقعات سے مربوط آیات میں ذکر هوا هے، وه یه هے که خداوند متعال اپنے پیغمبر (ص) کو تنبیه کرتے هوئے خطاب فرماتا هے که آپ نے کیوں اولویت یا مصلحت کے خلاف عمل کیا هے ـ
سوره انفال کی آیت نمبر 67 میں جو یه ارشاد هوتا هے "کسی پیغمبر کے لئے سزاوار نهیں هے اور اس کی شان میں نهیں هے که اس کے لئے کچھـ اسیر هوں تاکه ...." اس میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے خطاب اور تنبیه نهیں هے، بلکه جنگ بدر میں شرکت کرنے والوں سے خطاب هے ـ
اسی طرح سوره توبه کی آیت نمبر 43 میں جو ارشاد هوتا هے که: "خداوند متعال نے تمھیں بخش دیا، تو نے کیوں جنگ تبوک میں خلاف ورزی کرنے والوں کو اجازت دیدی ...."اس میں رسول خدا (ص) کی اجازت نه عرفی گناه هے اور نه لغوی، بلکه اس آیه شریفه میں در حقیقت سنجیده تنبیه نهیں هے ـ حقیقت میں یه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حق میں دعا، قدردانی اور تکریم هے ـ پس ان واقعات میں پیغمبر اکرم ترک اولٰی یا ترک مصلحت کے مرتکب نهیں هوئے هیں ـ
اس مسئله کے بارے میں علمائے اسلام نے بڑی دلچسپ بحثیں کی هیں که کیا انبیا کی عصمت کا تقاضا هے که حتی وه ترک اولٰی کے مرتکب هوجایئں ؟
انبیاء (ع) کی عصمت کی بحث میں کها گیا هے : "سرانجام جو چیز دلالت و برهان سے ثابت هوتی هے وه گناه، خطا اور فراموشی کی به نسبت عصمت هے، نه ترک اولٰی کے مرتکب نه هونے کی اور خداوند متعال نے بعض اوقات اپنے انبیاء (ع) کو ایک قسم کی سزا سے دوچار کیا هے که کیوں آپ نے دو اچھے کاموں میں سے خوب تر کام کو چھوڑ دیا هے ـ [1]
ایک گروه کے لوگ کهتے هیں: "اگر کسی موضوع یا واقعه کے بارے میں پیغمبر (ص) کو کوئی وحی نازل نه هوتی تھی تو آپ اپنے اجتهاد پر فیصله لیتے تھے اور آپ (ص) کے اولویت کے خلاف لئے گئے فیصله کے بارے میں خدا کی طرف سے تنبیه کی جاتی تھی، جیسا که بدر [2] کے اسیروں کے بارے میں پیش آیا اور پیغمبر (ص) کی تنبیه کی گئی که اولویت کے حکم کی طرف لوٹ آیئں یا جنگ تبوک [3] میں منافقین [4] کے ایک گروه کودی گئی اجازت کے بارے میں ـ
لیکن اکثر شیعه علما عصمت کی بحث میں اگرچه ترک اولٰی کو مضر نهیں جانتے هیں، لیکن مذکوره دو آیتوں کے مفهوم کو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا ترک اولٰی سے دوچار هونا نهیں جانتے هیںـ مثال کے طور پر جنگ بدر کے واقعه کے بارے میں کهتے که اس آیت میں خطاب اور تنبیه پیغمبر اسلام (ص) سے مربوط نهیں هے ـ
علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے هیں: "اس آیت کے معنی یه هیں که خداوند متعال نے جس سنت کو انبیاء میں جاری کیا هے اس میں ایسی مثال نهیں پائی جاتی هے که پیغمبر (ص) نے کسی اسیر کو پکڑا هو اور اسے یه حق هو که اسیر پکڑ کر کوئی مال حاصل کرے مگر یه که اس کا دین زمین پر مستحکم هوا هو ـ
تمام مفسرین اس بات پر متفق هیں که یه آیات بدر کے واقعه کے بعد نازل هوئی هے اور ان میں جنگ بدر میں شرکت کرنے والوں کی تنبیه کی گئی هے اور سر انجام ان کے لئے غنیمت کو مباح کرتی هیں [5] اگرچه بعض مفسرین اس کے قائل هیں که اس میں تنبیه اس لئے هے که انهوں نے کیوں فدیه (صدقه) حاصل کیا، یا انهوں نے کیوں غنیمت کو خدا کی طرف سے مباح قرار دئے جانے سے پهلے حلال جانا، اس صورت میں پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی بھی تنبیه کی جائےگی، کیونکه انهوں نے خدا کی اجازت سے پهلے لوگوں سے فدیه کے بارے میں صلاح و مشوره کیا، لیکن یه بات صیحح نهین هوسکتی هے، کیونکه مسلمانوں نے اس آیت کے نازل هونے کے بعد فدیه لیا هے نه اس سے پهلے تاکه مستحق عذاب هوتے ـ پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم بھی اس سے بالاتر هیں که ان کے بارے، میں احتمال دیا جائے کے وه کسی چیز کو خدا کی اجازت اور وحی الٰهی سے پهلے حلال کریں، اور یه ممکن نهیں هے که خداوند متعال پیغمبر (ص) کو کسی بڑے عذاب کی دھمکی دے، کیونکه یه اس کی شان میں نهیں هے که کسی جرم کے بغیر عذاب بھیجدے، جبکه اس نے خود اپنے پیغمبر کو گناهوں سے معصوم قرار دیا هے اور معلوم هے که بڑا عذاب، بڑے گناه کے علاوه نازل نهیں هوتا هے [6]
اس سلسله میں تفسیر نمونه میں آیا هے: "بظاهر مذکوره آیات جنگی اسیر لینے کے سلسله میں هے، نه جنگ کے بعد فدیه لینے کے سلسله میں، اس طرح اس آیت کی تفسیر کو سمجھنے میں جو مشکلات بعض مفسرین کے لئے پیدا هوئے هیں وه خود بخود حل هوں گے ـ
اس کے علاوه یه ملامت اور تنبیه اس گروه کے بارے میں هے که مکمل کامیابی سے پهلے مادی مقاصد کے لئے اسیر پکڑنے میں لگ گئے تھے، اوراس کا پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور جهاد میں مشغول مومنین سے کوئی ربط نهیں هے ـ
اس بنا پر اس قسم کی بحثیں بے جا هیں که کیا بیغمبر یهاں پر مرتکب گناه هوئے هیں اور یه کیسے عصمت کے ستھـ سازگار هے؟
اس کے علاوه اهل سنت کی بعض کتابوں میں مذکوره آیت کی تفسیر میں جو احادیث بیان هوئی هیں، ان کے مطابق کهتے هیں: "آیه شریفه، جنگ بدر میں جنگ کے بعد اور خداوند متعال کی اجازت سے پهلے پیغمبر (ص) اور مسلمانوں کے توسط سے جنگی اسیروں سے فدیه لینے سے متعلق هے"ـ اور یه بے بنیاد هے ـ
لیکن جنگ تبوک میں پیغمبر اکرم (ص) کی اجازت کے بارے میں فخررازی وغیره کے مانند بعض افراد نے کها هے که عفو ترک اولی کے لئے تھا اور شرعی عرف میں ترک اولٰی ذنب شمار نهیں هوتا هے اور عذاب کا مستحق نهیں هے ـ
بعض دوسرے لوگوں نے کها هے که ترک اصلح کے لئے تھا اور ترک اصلح اگرچه لغوی طور پر ذنب هے، لیکن ذنب اور معصیت کے درمیان فرق هے ـ بهرحال آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی طرف سے اجازت دینا اجتهاد کے لحاظ سے تھا، چونکه اس سے قبل انھیں اس سلسله میں کوئی وحی نازل نهیں هوئی تھی اور ایسے مواقع پر انبیاء (ع) سے غلطی سرزد هونا جائز اور ممکن هے ـ جو جیز جائز نهیں هے وه وحی کی مخالفت اور خداوند متعال کی نافرمانی کرنا هے، که اس پر سبوں کا اتفاق هے که انبیاء اس لحاظ سے معصوم هیں اور محال هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم جھوٹ بولیں یا جو چیز انھیں وحی هوئی هے اس میں خطا کریں اور یا عملاً اس کی مخالفت کریں
علامه طباطبائی ان اقوال کی تنقید کرنے کے ضمن میں فرماتے هیں: "یه آیت یه دعویٰ کرنے کے مقام میں هے که نفاق اور جھوٹ بولنا ظاهری خلاف و رزیاں هیں اور ایک معمولی امتحان سے ان کا پول کھل جاتا هے اور رسوا هوتے هیں اور اس مقام کے مناسب یه هے که خطاب اور عتاب کو مخاطب کی طرف قرار دیا جائے اور اس کی ملامت کی جائے، مثال کے طور پر مخاطب ان کی حیثیت کو بچانے کا سبب بنا هےا ور اس نے ان کی رسوا یئوں پر سرپوش رکھا هے اور یه بذات خود آداب کلام میں سے هه که اس کا مراد صرف مطالب کو واضح کرنا هوتا هے اس سے زیاده اس کا استفاده نهیں کیا جاتا هے ـ یه ایک کنایه هے اور اس سے ظاهری معنی مراد نهیں هے ـ
اس جمله میں بھی مراد یه نهیں که رسول خدا (ص) کی گردن پر کوئی قصور ڈالا جائے اور اس کے بعد کها جانے که رسول خدا (ص) کے قصور کو معاف کیا گیا، یه ممکن نهیں هے که امر خدا کو احیاء کرنے میں آنحضرت (ص) سے کوئی غلط تدبیر سرزد هو جائے اور اس طرح مرتکب گناه هوجایئں، بلکه اس کا مراد، وهی منافقین کے جھوٹ کا پول کھولنا هے اور اس کے علاوه کچھـ نهیں هے ـ
یه جو فرمایا هے که آپ نے کیوں انھیں اجازت دیدی؟ کے معنی یه هیں که اگر اجازت نه دیتے تو وه بهتر اور جلدی رسوا هوتے، اور وه برے اسرار اور بدنیتی کی وجه سے اس معنی کے مستحق تھے، نه اس لئے که اجازت نه دینا دین کی مصلحت کے نزدیک تر اور اصولی طور پر زیاده مصلحت کا حامل تھا ـ [7]
لهذا رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی اجازت نه عرفی ذنب هے اور نه لغوی اور اس آیت میں تنبیه ایک غیر قطعی تنبیه هے اور حقیقت میں "عفا الله عنک" کی عبارت دعا هے نه خبر ـ [8]
اس سلسله میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ملاحظه هو:
1ـ " تأملات در علم اصول فقه"، سلسله درس های خارج علم اصول، کتاب اول، دفتر پنجم، مبادی صدوری سنت، ص 31- 33، استاد مهدی هادوی تهرانی.
2ـ عنوان : " عصمت انبیا از دیدگاه قرآن"، سؤال 112 (سایٹ: ).
3ـ عنوان : "آیات عصمت و عدم عصمت انبیا (ع) در قرآن"، سؤال 2719 (سایٹ: 3005) .
[1] هادوی تهرانی، مهدی، تأملات در علم اصول فقه، سلسله درس های خارج علم اصول، کتاب اول، دفتر پنجم، مبادی صدوری سنت، ص 21و 22.
[2] قرآن مجید "بدر" کے اسیروں کے بارے میں ارشاد فرماتا هے: "ما کان لنبی ان یکون له اسری..." "کسی نبی کو یه حق نهیں هے که وه قیدی بناکر رکھے جب تک زمین جهاد کی سختیوں کا سامنا نه کرے ـ" سوره انفال/ 67
[3] منافقین میں سے کچھـ پیغمبر (ص) کے پاس آگئے اور گوناگون عذرخواهیوں کے اظهار اور قسم کھانے کے بعد، اجازت چاهی که آنحضرت (ص) انھیں میدان کا رزار میں شرکت سے معذور قراردیں اور پیغمبر (ص) نے ان لوگوں کو اجازت دیدی "عفا الله عنک لم اذنت لھم ..." خدا نے تمھیں بخش دیا که، انھیں کیوں اجازت دیدی .... اس کے پیش نظر که آیت میں استفهام انکار یا سرزنش کے لئے هے، آیت کے معنی یوں هوں گے "بهتر تھا که هرگز اجازت نه دیتے کیونکه انهوں نے جنگ سے کناره کشی کرنے کے لئے خلاف ورزی کی هے" سوره توبه / 43ـ
[4] عبدالغنی خطیب، قرآن و علم امروز، ص 64.
[5] یعنی خداوند متعال نے ان آیات میں جنگ بدر میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کی اس وجه سے تنبیه کی هے که انهوں نے کفار سے کچھـ اسیر پکڑ لئے تھے اور اس کے بعد رسول خدا (ص) سے درخواست کی که ان کے قتل کا حکم صادر نه کریں اوراس کے بدلے میں ان سے خون بها وصول کرکے انھیں آزاد کریں تاکه اس طرح کفار کے خلاف ان کی مالی حالت کو تقویت ملے اور اپنے نقائص کی اصلاح کریں، اگر خدا وند متعال نے مسلمانوں کی سخت تنبیه کی لیکن ان کی تجویز قبول کی گئی اور غنیمت میں ان کے تصرف کرنے کو مباح قرار دیا جو خون بها میں شمار هوتا تھا ـ
[6] طباطبائی، محمد حسین، المیزان (ترجمه فارسی)، ج 9، ص 177- 180 .
[7] اس کی دلیل مذکوره آیت کے بعد چوتھی آیت هے که ارشاد فرماتا هے : لو خرجوا فیکم ما زادوکم الا خبالا و لاوضعوا خلالکم یبغونکم الفتنة و فیکم سماعون لهم ..."؛ کیونکه اس آیت سے معلوم هوتا هے که، آنحضرت (ص) کا اجازت نه دینا ذاتی طور پر مصلحت نهیں تھی بلکه اجازت دینے میں زیاده مصلحت تھی کیونکه اگر اجازت نه دیتے اور منافقین کو اپنے ساتھـ لے جاتے تو باقی مسلمان بھی کج فکری سے دوچار هوتے، اور ان کا اتحاد و اتفاق بھی تفرقه اور اختلاف میں تبدیل هو جاتا ـ پس بهتر یهی تھا که انھیں خلاف ورزی کرنے کی اجازت دی جائے" المیزان (ترجمه فارسی) ج 9، ص 383 ـ
[8] مزید معلومات کے لئے ملاحظه هو: طباطبائی، محمد حسین، المیزان، (ترجمه فارسی)، ج 9، ص 381- 388.