Please Wait
7031
ایک معاشرے کی پاکیزگی اس کے افراد کی پاکیزگی کے ساتھه متعلق ھے۔ چاھے وه کسی بھی جنس سے ھوں ، مرد ھوں یا عورتیں ، اور ایک سماج میں افراد کا پاکیزه رھنا ، ان کےصحیح طریقے سے تربیت کےذریعے ھی ممکن ھے ھے۔ اسلام نے فرزندوں کی تربیت کے سلسلے میں ( تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ) اور دوسرے مراحل میں تربیت کے بارے میں مفید قوانین بنائے ھیں۔ اگر ان قوانین پر صحیح طور سے عمل کیا جائے تو معاشره بھی پاکیزه اور محفوظ رھے گا اور زور زبردستی کرنے کی بھی ضرورت نھیں پڑے گی۔ اس کے علاوه سماج میں کسی کو محدود کردینے کی ضرورت نھیں ھے۔
اسلام نے مرد اورا عورت ،لڑکا اور لڑکی کے جسمانی ، روحانی ، اور نفسیاتی فرق اور ان کی خصوصیات اور صفات کو مد نظر رکھه کر ، ان میں سے ھر ایک کیلئے خاص فرائض معین کئے ھیں۔ ان احکام اور فرائض کا خیال کرنے سے اسلام کا مقصد انسانی (مرد اور عورت)اقدار کی حفاظت کرنا ھے نھ کھ ان کو محدود کرنا اور نھ ان پر زور زبردستی کرنا۔
ایک سماج کی پاکیزگی اور سلامتی اس سماج کے تمام افراد کی صحیح تربیت اور ان کی سلامتی سے متعلق ھے ۔ اگر کسی سماج مین صرف عورتیں پاکیزه ھوں اور صرف وه تربیت کے صحیح اور اخلاقی مسائل کا خیال کریں، جبکھ مرد آزاد ھوں اور وه اخلاقی اصول کے پابند نھ ھوں تو یھ سماج کبھی بھی چین سے نھیں رھے گا ۔ اس کے بر عکس اگر صرف مرد پاکیزه ھوں اور عورتیں آزاد ھوں پھر بھی یھ سماج پرسکون اور مطمئن نھیں ھوگا۔ اس معاشره میں ھمیشھ خطرات لاحق ھوں گے ۔ سماج اس وقت صحیح اور سالم ھوگا جب اس میں مرد اور عورتیں دونوں صحیح اصولوں کے مطابق تربیت حاصل کرلیں اور خود بھی وه صحیح اور سالم ھوں، آفات اور خطرات کو پھچان کر ، اپنی سلامتی اور پاکیزگی کی حفاظت کرسکیں۔
چونکھ مرد اور عورت (لڑکا یا لڑکی) بھت اھم خصوصیات رکھتے ھیں ، ان کی پاکیزگی میں رکاوٹ ڈالنے والے اسباب بھی مختلف ھیں، جس طرح ایک چمن میں ، ایک پھول کیلئے خاص دیکھه بھال کی ضرورت ھوتی ھے۔انسانی معاشرے میں بھی انسانی پھولوں (لڑکا اورلڑکی) کی پرورش کیلئے خاص طرح کی دیکھه بھال ضروری ھے۔ جو ایک دوسرے سے مختلف ھے، عورت اور لڑکی چونکھ بھت ھی نازک مزاج ھیں اور حضرت علی علیھ السلام کے فرمودات کے مطابق " عورت خوشبو دار پھول ھے" [1] وه زیاده جذباتی اور جلدی ٹوٹنے والی ھے اور ممکن ھے کھ ایک نسیم کے آنے سے ختم ھوجائے۔ اسی لئے اس کے بارے میں خاص احتیاط برتنا پڑتی ھے، یھی وجھ ھے کھ اسلام نے عورتوں کیلئے حجاب اورپردے کو واجب کیا ھے ۔ یھ پرده ، عورت کو مختلف آفات اور خطرات سے محفوظ رکھتا ھے۔ کیونکھ ھر لحظھ ممکن ھے کھ اس کی تکریم اور عفت کا جوھر خطرے میں پڑ جائے ۔ حقیقت میں پرده عورت کی تکریم اور بزرگی کی علامت ھے، نھ کھ محدودیت اور اھانت کی۔ کسی گوھر کو جس وقت چوروں کے ڈر سے کسی صندوق میں رکھه کر اس کے اوپر تالا لگاتے ھیں اور اس کو ایک محفوظ جگھ پر رکھتے ھیں تو کیا آپ اس کی قیمت گھٹا دیتے ھیں؟ یا اس کے قیمتی ھونے کی وجھ سے اس پر تالا لگاتے ھیں ؟ یقینا آپ اس گوھر کی اھمیت کو جان کر ھی اس پر تالا لگاتے ھیں۔ عورتوں کو پرده کرنے کا اسلامی حکم بھی اسی کے مانند ھے۔ لیکن مرد کی طبیعت نازک اور حساس نھیں ھے ۔ اسی لئے اسے اتنی حفاظت اور حجاب ( عورتو ں کی حد تک ) ضروری نھیں ۔ لیکن اس کے باوجود اسلام نے مرد کے لئے بھی فرائض بیان کئے ھیں کھ اگر ان پر صحیح طور پر عمل کریں اور عورتیں بھی اپنےفرائض کو انجام دیں تو سماج ایک صحیح اور سالم سماج بن سکتا ھے۔
دوسرا نکتھ : مرد اور عورت کے جذبات اور ذھنیت (حوصلے ) آپس میں فرق رکھتے ھیں۔ چونکھ عورت میں رقیق جذبات ھوتے ھیں ، خدائے متعال نے عورتوں کے بارے میں خاص قوانین بیان فرمائے ھیں کھ ان قوانین کا خیال رکھنا ان کے جذبات اور ذھنیت کے معتدل بنانے میں معاون ھیں ۔ کیونکھ اگر جذبات معتدل نھ ھوں تو، گھر کی بنیادیں بھی ٹوٹ جائیں گی۔
بطور خلاصھ ، اسلام نے عورتوں کے بارے میں جو قوانین معین کئے وه سب اں کی مصلحت اور سماج کی حفاظت کیلئے ھیں جسے "محفوظ ھونے" سے تعبیر کیاجاتا ھے۔ نھ کھ محدودیت اور سختی۔ جو قوانین اور احکام مردوں کیلئے معین کئے ھیں وه بھی اسی لحاظ سے ھیں ۔
اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے رجوع کریں ، " فلسفھ حجاب" استاد شھید مرتضی مطھری ۔[2]