Please Wait
13363
جس مسئلھ کی جانب آپ نے اشاره کیا ، فقھی کتب میں اس طرح آیا ھے اگر کوئی چیز، شیر خوار بچے جو لڑکا ھے اور وه دودھ کے علاوه کچھه اور نھیں کھاتا ھے اور سؤر کا دودھ بھی نھیں پیتا ھے، کے پیشاب سے نجس ھوجائے تو اگر اس کے اوپر ایک مرتبھ پانی ڈالیں اور وه پانی اس کیسب جگھوں تک پھنچے تو وه پاک ھوتا ھے اور لباس، فرش اور ان جیسی چیزوں کو نچوڑنا ضروری نھیں۔ پس :
اولا: دودھ پینے والے بچے کا پاخانھ اس حکم کو شامل نھیں ھوتا ،
ثانیا: فقھاء کی عبارات میں اس طرح کی تعبیر نھیں کھ دودھ پینے والے بچے کا پیشاب نجس نھیں ھے۔
یھ مسئلھ تقریبا تمام اسلامی فقھاء( شیعھ اور سنی ) کے درمیان مورد اجماع ھے اور فقھاء کے فتوی کی مستند روایات ھیں جو فقھی اور روایی کتب میں آئی ھیں۔
البتھ جو کچھه آپ نے مذکوره رسالھ کے بارے میں لکھا ھے وه اسلامی فقھ کی تاریخ میں اس طرح آیا ھے کھ بعض فقھا جیسے اسکافی اور صدوق کا یھ عقیده ھے کھ دودھ پینے والے بچے کا پیشاب جو ابھی کھانا نھیں کھاتا ھے نجس نھیں ھے پس اس نظریھ کے مطابق بھی پاخانھ کا یھ حکم نھیں بلکھ صرف پیشاب کا یھ حکم ھے۔
نیتجھ یھ کھ جو کچھه مذکوره رسالھ کے بارے میں نقل ھوا:
اولا : سبھی فقھاء کے فتوی کے مخالف ھے۔
ثانیا: بعض فقھا جیسے صدوق ( رح) کے فتوی سے بھی مطابق نھیں۔
آپ نے جس مسئلھ کی جانب اشاره کیا ھے وه فقھی کتب میں اس طرح آیا ھے کھ :
اگر دودھ پینے والے بچے[1] جو ابھی تک کھانا نھیں کھاتا اور سؤر کا دودھ بھی نھیں پیتا ھے، کے پیشاب سے کوئی چیز نجس ھوجائے ، تو اگر اس کے اوپر ایک مرتبھ پانی ڈالاجائے جو اس کی سب جگھوں پر پھنچے وه پاک ھوتا ھے اور کپڑے ، فرش وغیره کو نچوڑنا ضروری نھیں ۔ [2]
پس اولا : پاخانھ اس حکم کو شامل نھیں ،
ثانیا: فقھاء کی عبارات میں یھ تعبیر موجود نھیں کھ دودھ پینے والے بچے کا پیشاب نجس نھیں ھے۔
یھ مسئلھ مورد اجماع ھے اور سبھی اسلامی فقھاء ( شیعھ اور سنی ) اس پر اتفاق کرتے ھیں [3] فقھاء کے فتوی کی مستند بعض روایات ھیں جن کا ذکر فقھی اور احادیت کی کتب میں آیا ھے اوریھان پر بعض روایات کا ذکر کرتے ھیں۔
۱۔ امام صادق علیھ السلام بچے کے پیشاب کے بارے میں فرماتے ھیں: اس کے اوپر پانی ڈالا جاتا ھے تا کھ دوسری جانب نکل جائے۔ [4]
۲۔ حلبی کھتا ھے کھ امام صادق علیھ السلام سے بچے کے پیشاب کے بارے میں پوچھا گیا: انھوں نے فرمایا: اس کے اوپر پانی ڈالاجاتا ھے اگر وه ( بچھ) کھانا کھانے والا ھو تو اس کو پوری طرح دھویا جائے گا۔ [5]
البتھ چونکھ روایات سے استدلال کرنا علم فقھ سے مخصوص ھے اس لئے یھاں پرھم اس کو ذکر کرنے سے پرھیز کرتے ھیں۔
لیکن جو کچھه آپ نے مذکوره رسالھ کے بارے میں لکھا ھے وه فقھ اسلامی کی تاریخ میں اس طرح ذکر ھواھے کھ بعض جیسے اسکافی اور صدوق کا نظریھ یھ ھے کھ دودھ پینے والے لڑکے کا پیشاب جو ابھی کھانا نھیں کھاتا ھے نجس نھیں ھے۔ [6]
پس اس نظریھ کے مطابق دودھ پینے والے بچھ کا پاخانھ بھی نجس ھے اور صرف پیشاب ھی نجس نھیں ھے۔
ان فقھاء کی دلیل جن میں صدوق بھی شامل ھیں، حضرت علی علیھ السلام سے منقول روایت ھے جس کا متن یھ ھے کھ " ضروری نھیں ھے دودھ پینے والے بچے (اس سے پھلے کھ وه کھانا کھائے) ، کے دودھ اور پیشاب سے آلوده کپڑے کو دھویا جائے [7]
یھ روایت جو بعض فقھاء جیسے صدوق کی مستند قرار پائی ھے بھت ساری معتبر روایات سے متعارض ھے۔ لھذا صدوق ( رح) اور اسکافی کے علاوه فقھاء میں سے کسی نے اس کے مطابق فتوی نھیں دیا ھے ۔ شیخ طوسی ( رح) نے اس روایت کی تفسیر اور معنی میں لکھا ھے : روایت کا مطلب یھ ھے کھ اس کے اوپر پانی ڈالنا کافی ھے اور اس کو نچوڑنا ضروری نھیں ھے۔ [8] کیوں کھ کپڑے کا دھونا صرف اس کے اوپر پانی ڈالنا نھیں، بلکھ اس کو نچوڑنا بھی ضروری ھے ورنھ صرف پانی ڈالنے کو دھونا نھیں کھتے ۔
صاحب جواھر نے اس کے بارے میں ، کھ اس روایت پر عمل نھیں کرسکتے ، لکھا ھے ۔
اولاً: اس روایت کے راوی جو سکونی ھے ممکن ھے کھ اس روایت میں " تقیھ " ھو ،
ثانیاً: یھ روایت دواور روایات بلکھ تین اور روایات، جو اس سلسلے میں وارد ھوئیں ھیں متعارض ھیں ۔ یھ بات عیاں ھے کھ جو روایت سند اور دلالت کے لحاط سے طاقتور نھیں ھے اس روایت کے ساتھه جو سند اور دلالت کے اعتبار سے قوی ھے قابل قیاس نھیں ھے۔ پس ان روایات پر جو سند اور دلالت کے اعتبار سے قوی اور معتبر ھیں عمل کرنا چاھئے اور متعارض روایت کو چھوڑ دینا چاھئے۔ [9]
سندی اور دلالتی اشکالات کے علاوه یھ روایت اجماع اور شھرت کے خلاف ھے اور جو روایت شھرت کے خلاف ھو اس پر عمل نھیں کیا جا سکتا۔ [10]
نتیجھ یھ کھ جو کچھه آپ نے مذکوره رسالھ سے نقل کیا ھے :
اولا ً: وه سب فقھاء کے فتوی کے خلاف ھے۔
ثانیا: بعض فقھا جیسے صدوق کے فتوی سے بھی موافق نھیں۔
مزید مطالعھ کیلئے مشھور قول کی سند سے مندجھ ذیل منابع کی جانب رجوع کرسکتے ھیں ۔
۱۔ حر عاملی ، وسائل الشیعھ : ج ۲۔ ص ۱۰۰۳۔ اور ص ۱۰۰۴۔
۲۔ نجفی ، محمد حسن ، جواھر الکلام ، ج ۵ ص ۲۷۵، اور ۲۷۳۔
[1] آیات عظام ، مکارم شیرازی ، سیستانی ، زنجانی ، اس حکم کو لڑکی کیلئے بھی قائل ھیں، توضیح المسائل ( لمحشی للامام الخمیںی) ج ۱ ص ۱۰۶ ، مسئلھ ۱۶۱۔
[2] امام خمیںی ، منتخب توضیح المسائل ، قم انتشارات شفق ، چاپ ھشتم ، ص ۲۸، آیۃ اللھ اراکی ، توضیح المسائل ، دفتر تبلیغات ، تاریخ ۱۳۷۳، ص ۳۱۔ آیۃ اللھ فاضل لنکرانی ، توضیح المسائل ص ۴۵۔
[3] محمد حسین نجفی جواھر الکلام ، ج ۵ ص ۲۷۳۔ تھران ، دار الکتب الاسلامیۃ ، چاپ سوم۔
[4] بحار الانوار، ج ۷۷ ص ۱۰۵۔ " قال الصادق علیھ السلام ، بول الصبی یصب علیھ الماء حتی یخرج من الجانب الاخر "
[5] ایضا ، ص ۱۰۱۔ رواه الشیخ فی الحسن عن الحلبی ، قال سالت ابا عبدا للھ علیھ السلام عن بول الصبی ، قال تصب علیھ الماء وفان کان قد اکل فاغسلھ غسلا ۔
[6] ا یضا ج ۵ ص ۲۷۳۔ صدوق ، المقنع، ص ۱۵۔
[7] ایضا ، ج ۲، ص ۱۰۰۴، ح ۴۔ مورد بحث روایت اس طرح ھے ، " و باسناده عن محمد بن احمد بن یحیی عن ابرھیم بن ھاشم عن النوفلی عن السکونی ، عن جعفر عن ابیھ علیھما السلام ان علیا قال ۔۔۔ و لبن الغلام لا یغسل من الثوب ، و لا من بولھ قبل ان یطعم۔۔۔"
[8] شیخ طوسی تھذیب منقول از وسائل الشیعھ ۔جواھر الکلام ج ۳ ص ۱۰۰۳۔
[9] جواھر الکلام ج ۵ ص ۲۷۵، ۲۷۳۔
[10] ایضا۔