Please Wait
10653
- سیکنڈ اور
یہ دعا، ابن طاوس کی کتاب " جمال الاسبوع" میں نقل کی گئی ہے، اس کے علاوہ مصباح کفعمی ، وسائل الشیعہ اور بحار الانوار میں بھی درج کی گئی ہے-
ہمارا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلام، {ص} کے مقام و منزلت کی برتری میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے اور یہ عقیدہ ہمارے مذہب کے مسلمات میں سے ہے، اس کے باوجود کچھ ایسی روایتیں موجود ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ نور محمدی{ص} اور نور علوی [ع]کی حقیقت میں ایک باطنی اتحاد و یکجہتی پائی جاتی ہے اور نورانیت کی اس وحدت سے بعض اوقات، پیغمبر اکرم {ص} کی نسبت سے حضرت علی{ع} کی علمی وراثت کی تعبیر کی گئی ہے- اس سلسلہ میں کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} کی برتری و منزلت کے لحاظ سےآپ {ص} کی نورانیت کی علی [ع]کی نورانیت سے وحدت میں کوئی منافات نہیں ہے اور ذہن کو اس مطلب کے قریب لانے کے لئے اسے ایک ہی نور سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ جس کے شدید اور ضعیف مراتب ہیں-
مذکورہ دعا کو شیعوں کے ایک بڑے عالم دین ابن طاوس نے اپنی کتاب " جمال الاسبوع" میں نقل کیا ہے-[1] ،اس کے علاوہ مصباح کفعمی [2]، وسائل الشیعہ[3] اور بحار الانوار[4] میں بھی یہ دعا درج کی گئی ہے- مذکورہ دعا کے علاوہ یہ عبارت: "یا محمد یا علی، یا علی یا محمد" بعض دوسری دعاوں اور مستحب نمازوں میں بھی نقل کی گئی ہے جو اس دعا کی تائید ہے-
اس دعا میں مذکورہ عبارت سے حضرت محمد {ص} اور علی{ع} کے درمیان ایک قسم کی وحدت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مخلوق سے پہلے پیدا کئے گئے ہیں اور علی {ع} کا باطنی مقام اس نور کے ساتھ متحد ہے، اس مطلب کی طرف روایتوں میں کافی صراحت کی گئی ہے، ان روایتوں میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
- عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ عَنِ النَّبِيِّ (ص) قَالَ خُلِقْتُ أَنَا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُورٍ وَاحِدٍ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَ بِأَرْبَعَةِ آلَافِ؛[5]،" سلمان فارسی سے روایت نقل کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا:" خدا کی جانب سے حضرت آدم {ع} کو پیدا کئے جانے سے چار ہزار سال پہلے میں اور علی ایک ہی نور سے پیدا ھوئے ہیں-
- قال (ص) أنا و علي من نور واحد و أنا و إياه شيء واحد و إنه مني و أنا منه لحمه لحمي و دمه دمی؛[6] " آنحضرت {ص} نے فرمایا: میں اور علی ایک نور سے ہیں ، میں اور وہ ایک ہی چیز ہیں اور وہ مجھ سے اور میں ان سے ھوں، ان کا گوشت میرا گوشت ہے اور ان کا خون میرا خون ہے-"
- عن جابر بن عبد الله قال قلت يا رسول الله ما تقول في علي بن أبي طالب قال يا جابر خلقت أنا و علي من نور واحد قبل أن يخلق الله آدم بألفي عام نقلنا إلى صلبه و لم نزل نسير في الأصلاب الزاكية و الأرحام الطاهرة حتى افترقنا إلى صلب عبد المطلب فجعل في النبوة و الرسالة و فيه الخلافة و السؤدد؛[7]" جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے رسول خدا{ص} سے عرض کی: علی بن ابیطالب {ع} کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آنحضرت{ص} نے جواب میں فرمایا: اے جابر؛ حضرت آدم {ع} کی پیدا ئش سے دو ہزار سال قبل میں اور علی ایک ہی نور سے پیدا ھوئے ہیں، اس کے بعد حضرت آدم {ع} کے صلب میں منتقل ھوئے اور اس کے بعد پاک و پاکیزہ اصلاب اور ارحام میں منتقل ھوتے رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں منتقل ھوئے اور اس میں دوحصوں میں تقسیم ھوئے اور اس کے بعد نبوت و رسالت مجھ میں اور خلافت و سیادت علی میں قرار پائی-"
- دوسری جانب، شیعوں کے علماء کا اس امر پر اتفاق نظر ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} کا مقام قطعا تمام مخلوقات، من جملہ حضرت علی {ع} سے برتر ہے اور اس مطلب میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے اور جو بھی حضرت علی{ع} کے مقام کو برتر جانے، اس نے پیغمبر اسلام {ص} کے باطنی مقام کے بارے میں مکمل معرفت حاصل نہیں کی ہے، جیسا کہ خود حضرت علی {ع} نے بھی اس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ:
" أَنَا عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِ مُحَمَّدٍ؛[8] " میں محمد{ص} کے بندوں میں سے ایک بندہ ھوں"
آنحضرت {ص} اور حضرت علی {ع} کو ایک دوسرے کے ساتھ قرار دینے سے جو نکتہ روایات سے معلوم ھوتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت محمد {ص} کی نورانیت کا مقام تمام کائنات کی مخلوقات سے برتر ہے اور حضرت علی {ع} انسان کامل کے عنوان سے پیغمبر اسلام {ص} کے باطنی مقام کی حقیقت سے متحد ھوئے ہیں اور اس لحاظ سے ولایت کلیہ الہیہ کے مظہر بھی ہیں- اس کے علاوہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق، رسالت کا کامل ھونا اور اتمام بھی حضرت علی {ع} کے امر ولایت کے اظہار سے متحقق ھوتا ہے، جو حقیقت میں پیغمبر اسلام {ص} کے باطنی مقام کا تجسم ہے-
حقیقت میں حضرت علی {ع} پہلے اور سب سے برتر انسان ہیں جو آنحضرت {ص} کے ساتھ عشق و ارادت کے مقام پر اس حد میں تھے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہا تھا، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام {ص} اپنی باطنی حقیقت کو حضرت علی {ع} میں مشاھدہ فرما رہے تھے اور حتی کہ معراج میں بھی خداوند متعال نے اپنے محبوب {ص} سے حضرت علی {ع} کی زبان میں گفتگو کی-
حضرت محمد {ص} اورحضرت علی {ع} کے درمیان روابط ہمارے بشری روابط کے تصور سے بالاتر ہیں اور حقیقت میں یہ ایک الہی رابطہ ہے اور اسی لحاظ سے جو باتیں ان کے باہم و صف کے بارے میں کہی گئی ہیں، وہ حیرت انگیز ہیں اور یہ جو روایتوں میں نورانی اتحاد کا ذکر کیا گیا ہے، اسی رابطہ کا نتیجہ ہے اور" یا محمد یا علی و یا علی یا محمد "کی عبارت میں ضمنی طور پر اسی کی طرف اشارہ ہے-
خود آنحضرت {ص} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
أ" يَا سَلْمَانُ وَ يَا جُنْدَبُ أَنَا مُحَمَّدٌ وَ مُحَمَّدٌ أَنَا وَ أَنَا مِنْ مُحَمَّدٍ وَ مُحَمَّدٌ مِنِّي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيانِ بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا يَبْغِيانِ "؛[9] " اے سلمان واے جندب؛ میں محمد اور محمد میں ھوں، اور میں محمد سے ھوں اور محمد مجھ سے ہے، جیسا کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ: " اس نے دو دریا بہائے ہیں جو آپس میں مل جاتے ہیں ، ان کے درمیان حد فاصل ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرسکے-"
اس بنا پر حضرت علی [ع} اور ائمہ اطہار {ع} کی پیغمبر اسلام {ص} سے اطاعت ایک وجودی اور نورانی اطاعت ہے،لہذا وہ آنحضرت {ص} کی پوری حقیقت کے آئینہ تھے- حقیقت میں، جو علم حضرت علی {ع} اور ائمہ اطہار {ع} کو آنحضرت {ص} سے وراثت میں ملا ہے، وہ وہی حقیقت محمدی {ع} کا نور ہے جو اسم اعظم الہی شمار ھوتا ہے اور اسی لحاظ سے ائمہ اطہار {ع} اپنے آپ کو اسماء و صفات الہی کے مظاہر کے عنوان سے متعارف کراتے تھے: : "نحن والله الاسماء الحسنی " [10]خدا کی قسم ہم خداوند متعال کے اسمائے حسنی ہیں-"
البتہ پیغمبر اسلام کی نورانیت کی حقیقت اس امر میں مقدم ہے بلکہ اس منزلت میں اصل و بنیاد شمار ھوتی ہے-
اس بحث کے مزید واضح ھونے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں پر حضرت محمد {ص}کی نورانیت کی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا جائے، جس کے بارے میں اسلامی عرفان میں " حقیقت محمدیہ" کے عنوان سے بحث کی گئی ہے:
" حقیقت محمدیہ" اسلامی عرفان میں ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اول ذات الہی کا تعین ہے جو اسمائے الہی حسنی کا جامع ہے- اسی حقیقت سے، تمام عوالم مرحلہ ظہور تک پہنچے ہیں اور اسے " حقیقت الحقائق" بھی کہا جاتا ہے- عرفا کے اعتقاد کے مطابق " حقیقت محمدیہ" انسان کامل میں مکمل طور پر ظاہر ھوتی ہے، عالم سفلی میں ، نبی، رسول، اور ولی اس حقیقت کے مظاہر ہیں اور اس عالم میں ان کا مکمل ترین مظہر پیغمبر اسلام {ص} ہیں-[11] عرفا کے نظریہ کے مطابق حقیقت محمدیہ کائنات میں تمام خیرات و برکات کے ظہور کا واسطہ ہے اور یہ مقام صاحب ولایت علویہ کے لئے وراثتا ثابت ہے[12]
حقیقت محمدیہ، حقیقت علویہ اور ولایت کلیہ الہیہ کی اصطلاحیں عرفان میں بہت سے مواقع پر ایک ہی معنی میں استعمال ھوئی ہیں اور اس کے علاوہ عرفا نے کہا ہے کہ:" "الولایة محمدی المشرب و علوی المتحد"؛[13]" ولایت الہیہ، محمدی مزاجی کیفیت اور علوی تعریف رکھتی ہے-"
عرفانی نقطہ نظر سے ان انوار کا اتحاد مقامات میں تفاوت اور ایک دوسرے کی اطاعت سے منافات نہیں رکھتا ہے اور عشق، توحید، وحدت، شہود اور وجود کے مقام پر، پیغمبر {ص} اور اہل بیت{ع} کے انوار کے درمیان ہر قسم کے امتیاز کا قائل ھونا، کثرت کا قائل ھونا ہے اگر چہ یہ کثرت اپنے مقام پر محفوظ ہے- یہ وہی وحدت میں کثرت کا راز ہے کہ حقیقی عرفان میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
اینجا حلول کفر بود اتحاد ہم
کین وحدتی است لیک بہ تکرار آمدہ[14]
عاشق و معشوق کے درمیان ایک ایسا سر ہے جو مخلوقات کے ادراک کی حد سے خارج ہے اور اس میں درجات اور مقامات کے بارے میں تفاوت ختم ھوتے ہیں اور عاشق و معشوق کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا ہے- بلکہ عاشق وہی معشوق ہے اور معشوق بھی وہی عاشق ہے اور اتحاد اور تجلی کے معنی کی اس کے علاوہ کوئی تفسیر نہیں کی جاسکتی ہے-
تفاوت کے باوجود، نورانیت کے مقام پر نور کی تدریجی وحدت کے طریقہ سے بھی اس نوری اتحاد کی ، وضاحت کی جاسکتی ہے، اس طرح کہ: متفاوت درجات کو قبول کرنے کے باوجود بھی، وحدت ذاتی کا التزام ممکن ہے، اس معنی میں کہ اگر چہ ان انوار میں سے ایک شدید تر اور ایک ضعیف تر ھو، لیکن در حقیقت نور ھونے میں ان کے درماین کوئی فرق نہیں ہے اور آپس میں اتحاد رکھتے ہیں-[15]
لیکن قابل توجہ ہے کہ معصومین {ع} کے انوار کے بارے میں تدریجی وحدت کو بیان کرنا صرف تشبیہ اور ذہن کے قریب لانا شمار ھوتا ہے اور یہ حقیقت وحدت کو ادراک کرنے کا صرف ایک طریقہ کار ہے ورنہ اس وحدت کی حقیقی ماہیت کو عین کثرت میں درک کرنا خداوند متعال اور اس کے مکمل ترین مظاہر کے درمیان تجلی و صفت کے اسرار جو خود ان انوار کی طرف پلٹتے ہیں" فلسفیانہ عقل کے حدود سے خارج ہیں-
اس کے علاوہ اس بحث کو اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ ہمیشہ ایک امتیاز و فضیلت کا مقام ولایت اور درجات میں برتر خدا کے نزدیک تر ھونے کے معنی میں نہیں ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ مقام ولایت میں مساوی ھونے کے فرض کے باوجود ایک افضل ھو اور نبوت جیسی فضیلت سے بہرہ مند ھو-[16]
امام خمینی {رح} کے کلام میں بھی اس بیان کے سلسلہ میں کچھ قرائن پائے جاتے ہیں- وہ نبوت محمدی{ص} کے بارے میں فرماتے ہیں: "جب مظہر اسم اللہ کی باری آتی ہے، تو پہلے سفر کے آخر پر، حق کو اپنے تمام شئونات کے ساتھ ظاہر دیکھتا ہے اور کوئی شان اسے دوسرے شئونات سے نہیں روکتی ہے اور دوسرے سفر کے آخر پر، اسم جامع الہی میں تمام حقائق کی نابودی اور حتی کہ اسم جامع الہی کی نابودی احدیت محض میں ھوگی، لہذا وہ جامع الہی کے باوجود مخلوق کی طرف پلٹتا ہے اور نبوت ازلی و خلافت ظاہری و باطنی کا مالک بنتا ہے-"
مزید فرماتے ہیں :" یہ اسفار حتی چو تھا سفر اولیائے کامل کے لئے بھی حاصل ھوتا ہے، جیسا کہ امیرالمومنین {ع} اور آپ {ع} کی معصوم اولاد کے لئے حاصل ھوا، لیکن چونکہ حضرت رسول {ص} صاحب مقام جمع تھے، اس لئے آپ {ص} کے بعد مخلوقات میں سے کسی ایک کے لئے بھی تشریع کی مجال باقی نہیں رہتی ہے اور یہ مقام بنیادی طور پر رسول اللہ{ص} کے لئے ہے، اور دوسرے معصومین {ع} کے لئے آپ {ص} کی تابعیت میں ہے، بلکہ ان سب کی روحانیت یکساں تھی- عارف کامل شاہ آبادی نے فرمایا ہے: اگر علی{ع} قبل از رسول خدا {ص} ظاہر ھوتے، تو شریعت اسلام کو وہی ظاہر کرتے، جیسا کہ پیغمبر اکرم {ص} نے اظہار فرمایا ہے یعنی یہ کہ وہ نبی مرسل ھوتے اور یہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ دونوں حضرات روحانیت اور معنوی و ظاہری مقامات میں آپس میں اتحاد رکھتے تھے-[17]
اس بنا پر، پیغمبر اسلام {ص} کی نبوت کی فضیلت میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہ رکھنے اور اسے مسلمات مذہب جانتے ھوئے بھی، جو معتبر روایتیں، نور محمدی اور نور علوی کی حقیقت کے درمیان اتحاد کی حکایت کرتی ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس اتحاد کے بارے میں وراثت علمی اور مکمل اطاعت کی تعبیر کی گئی ہے اور کبھی انوار معصومین {ع} میں تدریجی وحدت سے تعبیر کی گئی ہے، اس نطریہ کے مطابق تمام چودہ معصومین {ع} ایک حقیقت واحد پر قائم ہیں کہ وہ حقیقت محدیہ ہے کہ وہی اسم اعظم الہی ہے-
جیسا کہ زیر بحث عبارت یعنی " یا محمد یاعلی ، یا علی یا محمد " میں بھی ابتداء میں نام مبارک پیغمبر اسلام {ص} آیا ہے چونکہ اس حقیقت میں اصل شمار ھوتا ہے { یا محمد یا علی} اور دوسری بار اس امر پر تاکید کے لئے کہ ان دو کے درمیان دو گانگی نہیں ہے{ یاعلی یامحمد} ذکر کیا گیا ہے تاکہ پیغمبر اکرم {ص} کی برتری بھی معلوم ھوجائے اور ان دو کے درمیان وحدت نوری بھی متحقق ھو جائے-
مذکورہ معنی کی بہت سی روایتوں میں بھی تاکید کی گئی ہے-
اس لحاظ سے عبارت "یا محمد یاعلی یا علی یا محمد" جو دعا کے مقام پر بیان کی گئی ہے، حقیقت میں پیغمبر اکرم {ص} کے اس کلام کی تعبیر ہے کہ " انا و علی من نور واحد" اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال : ۷۶۴۸{ سائٹ: ۷۷۰۱} کا بھی مطالعہ کرسکتے ہیں-
[1] ابن طاوس، جمال الاسبوع، ص 280، انتشارات رضی، قم
[2] کفعمی، ابراهیمم بن علی آملی، المصباح، ص176، انتشارات رضی
[3] شیخ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج8، ص84، موسسه آل البیت
[4] مجلسی، محمد باقر، ج51،ص304، موسسه الوفا، بیروت
[5] ایضا،،ج38،ص 150
[6] احسائی، ابن ابی جمهور، عوالی اللآلی، ج4، ص 124، انتشارات سید الشهداء(ع)
[7] طبری، عماد الدین، بشارة المصطفی، ص190، کتابخانه حیدریه، نجف
[8] کلینی، الکافی، ج1، ص89، دار الکتب الاسلامیة
[9] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج26، ص5، موسسه الوفاء، بیروت
[10] کلینی الکافی، ج۱ ،ص۱۴۳
[10] دانشنامہ جہان اسلام ،نشربنیاد دائرہ المعارف اسلامی، ذیل حرفح-
شرح فصوص قیصری، سید جلالالدین آشتیانی ،پیشگفتار،ص۵۵ شرکت انتشارات علمی وفرہنگی-
[11] ایضا،حواشی جلوه، ص 279
[12] ، دیوان عطارنیشابوری
[13] ترخان، قاسم، نگرشی عرفانی فلسفی کلامی به شخصیت و قیام امام حسین(ع)، ص 121، انتشارات چلچراغ، قم
[13] ایضا،،ص 135
[14] امام خمینی، مصباح الهدایه الی الخلافة و الولایة ، ص 87-90 ، ص 137