Please Wait
6668
قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور ائمھ طاھرین علیھم السلام کی روایات ، انسان کے احترام اور اس کی کرامت خصوصاً مؤمنین پر زیاده تاکید کرتا ھے۔
قرآن مجید اور روایات کی نظر میں ، خوبصورت نام رکھنا اور ایک دوسرے کو نیک نام سے خطاب کرنا، مطلوب امور میں سے ھے۔ جو انسانوں کے اکرام اور انکے احترام کا سبب بنتا ھے۔
قرآن کریم سوره حجرات میں فرماتا ھے: "ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو" ، اس کے علاوه اسلام ھمیں یھ کھتا ھے کھ مؤمن کی قدر و منزلت کعبھ کے احترام سے بلند تر ھے۔ پس صحیح نھیں ھے کھ مؤمن انسان اپنی اور دوسرے مومنون کی شخصیت کی اھانت کرے۔ پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم او ائمھ اطھار علیھم السلام کبھی بھی اس بات پر راضی نھیں ھیں، کھ ان کےپیروکار ان کے احترام کیلئے اپنے آپ کی بے حرمتی کریں۔
البتھ توجھ کرنا چاھئے کھ انسان کے احترام کی چیزیں مختلف ثقافتوںمیں مختلف ھیں۔ کسی معاشرے میں کسی خاص نام سے نام رکھنا توھین اورجسارت کا سبب ھے۔ جبکھ دوسری ثقافت میں وه نام نھ صرف اشکال نھیں رکھتا ھے بلکھ ان کے صاحب پر افتخار کرنے کا سبب بھی ھے اور یھ بات بھت بدیھی ھے کھ اس ثقافت میں اس کا کنایی معنی مورد نظر ھے۔ اور کنایی استعمالات یقینی طور پر مومن انسان کے احترام کے ساتھه منافی نھیں ھیں۔
اسلام نے سب انسانوں خصوصا مؤمنوں اور مسلمانوں کوکرامت عطا کی ھے اور انھیں مورد احترام ٹھهرایا ھے اور ان کےلئے بلند مقام اور اھمیت کا قائل ھوا ھے۔
خداوند متعال نے انسان کی توصیف اور خلقت کی شرائط کو بیان کرکے فرمایا ھے: " بے شک ھم نے انسان کو بھترین صورت اور نظام کے مطابق بنایا ھے "۔ [1] اور اسی طرح فرمایا ھے " ھم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ھے " [2]
پس انسان ایک ایسی مخلوق ھے کھ جس کو خدا نے بھترین صورت میں خلق کیا ھےاور اپنے خالق کی نظر میں وه بلند احترام اورکرامت کا مالک ھے - اس سلسلے میں مومنیں اور جو دنیا میں الھی دستورات کے مقابلے میں سرتسلیم خم کرتے ھیں وه دوسروں کی نسبت بلند اور با اھمیت مقام کے حامل ھیں ، انھی آیات اور روایات میں یھ امر کیا گیا ھے کھ: " اپنے اور دوسروں کے مقام اور منزلت کی حفاظت میں کوشاں رھیں ۔ [3]"
بھت ساری روایات موجود هیں ، جن میں کسی مؤمن کا کام [4] انجام دینے اور ، مومن کی تکریم [5] کو مستحب قراردیا گیا ھے اور مومن کو ضرورت کے وقت تعاون کے ترک کرنے کو حرام قراردیا گیا ھے۔ [6] مومن کو بغیر کسی دلیل کے ناراض کرنے کو حرام جانا گیا ھے[7] ، ان روایات سے مومن کی تکریم اور مومنوں کو احترام کرنا سمجھا جاتا ھے یھاں تک که بیان ھوا ھے که : "مومن کی اھمیت اور اس کا احترام کعبھ کی اھمیت سے بلند ھے [8]"
اسی سلسلے میں خداوند متعال اور ائمھ طاھرین علیهم السلام کی طرف سے اپنے فرزندوں کے خوبصورت نام رکھنے اور ایک دوسرے کو نیک ناموں اور اچھے خطابات سے پکار نے پر تاکید کی گئی ھے۔ حضرت امام علی علیھ فرماتے ھیں :" بیٹے کا حق اس کے باپ پر یھ ھے کھ اس کو اچھا نام رکھے " [9]
قرآن کریم تاکید کرتا ھے کھ :"مؤمنین کبھی بھی ایک دوسرے کو مسخره نھ کریں اور برے ناموں اور القاب سے ایک دوسرے کو یاد نه کریں ، اپنے مسلمان بھائی کے بار میں برا گمان نھ کریں ، لوگوں کے عیب تلاش نه کریں اور ایک دوسرے کی غیبت نھ کریں"۔ [10] کیونکھ برے نام سے پکارنا ، مسخره کرنا دوسروں کے کاموں میں تفتیش کرنا اور لوگوں کے بارے میںبدظنی رکھنا مومنوں اور انسانوں کی عزت اور اھمیت کے مٹنے کا سبب بنتا ھے۔ جس طرح خداوند متعال راضی نھیں ھے کھ مؤمن ایک دوسرے کو مسخره کریں اور ایک دوسرے کو برے القاب سے بلائیں اور اگر کوئی اپنے اوپر برا نام اور لقب رکھے اور اس طرح سے اپنے لئے مسخره ھونے کے اسباب فراھم کرے ، اس کا یھ کام مورد پسند واقع نھیں ھے۔[11]
پس انسان ساز مذھب ، یعنی اسلام کے نقطھ نظر سے ایسا بالکل جایز نھیں کھ اشخاس ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکاریں یا کوئی اپنے اوپر برا نام رکھے- یھ قانون اور کلی قاعده عزاداری اور ماتم میں بھی صادق آتا ھے یعنی انسان کوائمھ اطھار علیھم السلام سے اظھار محبت کے طورپر بھی ایسا کام نھیں کرنا چاھئے۔ کیوں کھ یھ کام ائمھ معصومین علیھم السلام کی تعالیم کی روح اورپھلے درجے پر قرآن مجید کی بلند تعلیمات سے منافات رکھتا ھے۔ معصومین کی سیرت میں بھت دیکھا گیا ھے کھ وه ذلیلانھ کاموں سے ،جو بعض جاھل افراد احترام کے طور پر انجام دیتے تھے ، سختی سے روکتے تھے اور انھیں منع فرماتے تھے ۔ [12]
جب پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اور ائمھ اطھار علیھم السلام کسی کو اجازت نھیں دیتے تھے کھ کوئی ان کے مقابلے میں اپنی گردن جھکادےاور اپنے آپ کو اس حد تک ذلیل کرے، وه یقینی طور ایسا نھیں کرنے دیں گے کھ ایک مومن ان کے احترام کیلئے اپنے اوپر کتا یا کسی اور حیوان کا نام رکھے۔
ھم نے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اور ائمھ اطھار علیھم السلام کی سیرت میں کبھی ایسا نھیں دیکھا ھے کھ صدر اسلام کے مسلمان اور ان بزرگوں کے با وفا دوستوں یا بزرگ علماء جیسے آیۃ اللھ بروجری ( رح) امام خمینی ( رح ) وغیره ایسے اعمال کے مرتکب ھوئے ھوں ۔
دوسری جانب شیعھ کی توھین کرنا ، شیعوں کے رھبروں اور اماموں کے توھین کا سبب بنتا ھے جس سے نھی ھوئی ھے۔ حضرت امام صادق علیھ السلام نے فرمایا: "ھمیشھ ھمارے لئے زینت کا سبب بنو اور ھماری ذلت اور پستی کا سبب مت بنو"[13]
پس بھتر ھے سب عقیدت کے وسائل کو ائمھ معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق سنواریں تا کھ بھترطور پر ان کی خوشنودی کا سامان فراھم کرسکیں اور ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کریں جو افراد کی توھین یا عزاداری اورمذھب کی توھین کا سبب بنتے ھیں ۔
آخری میں اس نکتھ کی یاد آوی ضروری ھے کھ انسان کی کرامت ،کے ساتھه منافی امور ، مختلف تمدنوں میں مختلف ھوتے ھیں ، اور تمدنوں کا فرق اس معیار اور اصل میں بنیادی کردار رکھتا ھے یعنی ممکن ھے کھ بعض تمدنوں میں کسی نام گزاری کو توھین مانتے ھوں لیکن وھی نام دوسرے تمدن میں نھ صرف اشکال نھیں رکھتا ھو بلکھ سرفرازی کا سبب بھی ھو ، یقینی طور پر ان موارد میں کنایی معنی مراد هوتا ھے اور یقینا ادبی یا کنایی [14] استعمالات بھی مؤمن کی تکریم اور انسان کے احترام کے مناسب نهیں هیں۔
[1] سوره تین / ۴
[2] سوره اسراء / ۷۰
[3] سوره نور / ۱۲۰۔ سوره حجرات ۱۱ ، ۱۲، وسائل الشیعھ ج ۱۱ ابواب امر بھ معروف و نھی از منکر ، روایات اکرام مومن۔
[4] وسائل الشیعھ ج ۱۱ ص ۵۸۲
[5] ایضا ص ۵۹۰۔
[6] ایضا ص ۵۹۷۔
[7] وسائل الشیعھ ، ج ۱۱ ص ۵۶۹۔
[8] مستدرک الوسائل ، ج ۹ ص ۳۴۳۔ حدیث ۹۔
[9] نھج البلاغھ۔ حکمت ۳۹۹۔
[10] سوره حجرات ۱۱ تا ۱۴۔
[11] ترجمھ المیزان ، ج ۱۸ ص ۴۸۱۔
[12] نھج البلاغھ ، کلمات قصار ، شماره ۳۷۔
[13] الکافی ، ج ۲ ص ۷۷ ح ۹۔
[14] جیسا کھ شیخ طوسی ( رح کے حالات میں پڑھتے ھیں کھ انھوںنے امر کیا تھا کھ اصحاب کھف کے کتے سے متعلق آیھ شریفھ کو ان کی قبر پر لکھا جائے ،یا جس بیت کو آیۃ اللھ وحید خراسانی نے حضرت امیر المومنیں علی علیھ السلام کی مدح میں اپنے شعر میں فرمایا:
وحیدم مں اگر در جرم و تقصیر، سگی بودم شدم در کوی تو پیر۔
بھر حال یھ استممالات ادبی اور کنایی ھیں اور یھ انسانی کرامت سے کسی طرح کا منافات نھیں رکھتے۔