Please Wait
16201
شیعه اور اهل سنت کے درمیان بهت سے عقائد اورفروع دین مشترک هیں اور بعض لحاظ سے آپس میں کچھـ فرق رکھتے هیں – شیعوں اور اهل سنت کے در میان بنیادی فرق اهل بیت پیغمبر علیهم السلام کی امامت وولایت کے اعتقاد پر هے – اهل سنت کو شیعه بننے کے لئے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت کی ولایت وامامت کے بارے میں اپنے اعتقاد میں نظر ثانی کر نی چاهئے ، کیو نکه شیعه امام معصوم (ع) کے لئے مسئله وحی کے علاوه پیغمبر اسلام کی تمام خصو صیات کے قائل هیں اور وه امام معصوم علیه السلام کو خدا کی طرف سے منصوب، دینی مرجع ( دین کو بیان کر نے والا اور اس کا محافظ اور قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کر نے والا) ولایت تکوینی کا مالک ، کائنات کے مظاهر پر تصرف کر نے کی طاقت رکھنے والا ، سیاسی قائد ، اجتماعی مسائل میں رهبر اور فیصله کر نے کی صلاحیت رکھنے والا اور سب سے بڑا عالم جانتے هیں اور اس کی مکمل اطاعت کر نا اپنا فرض جانتے هیں- لیکن افسوس که دوسرے مذاهب اس قسم کا اعتقاد نهیں رکھتے هیں اور همارے آئمه اورپیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے اهل بیت کےبارے میں صرف محبت اور رابطه رکھنے پر اکتفا کر تے هیں-
جبکه امام و اهل بیت علیهم السلام کی مکمل پیروی کر نے کے لئے محبت کر نے کے علاوه ان کی تعلیمات پر عمل کر نا بھی ضروری هے جن کے بارے میں اهل سنت میں بھی روایتیں پائی جاتی هیں-
شیعه اور سنی کو ایک دوسرے سے دور کر نے کا سب سے بنیادی اور تنها مسئله امامت کا عقیده هے-
مکتب تشیع کا دوسرے اسلامی مذاهب سے فرق، شیعوں کے پیغمبراکرم (ص)کے اهل بیت علیهم السلام کی امامت وولایت کے بارے میں اعتقاد کا طریقه هے-یهاں پر هم مسئله امامت کے بارے میں شیعوں کے بعض عقائد کی طرف اشاره کرتے هیں-
١- شیعه- باره اماموں کو هر قسم کے گناه ، خطا اور بھول چوک سے پاک جانتے هیں- ان کے نام پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی احادیث میں واضح طور پر بیان هوئے هیں-[1]
٢- شیعه، امام معصوم علیه السلام کے لئے ، مسئله وحی کے علاوه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی تمام خصوصیات اور اختیارات کے قائل هیں-
٣- شیعه، امام معصوم علیه السلام کو دینی مرجع ( دین کو بیان کر نے والا، اس کا محافظ اور قرآن مجید کی آیات کا مفسر) جانتے هیں-
٤- شیعه ، امام معصوم علیه السلام کو ولایت تکوینی اور کائنات کے مظاهر میں تصرف کی طاقت رکھنے والا جانتے هیں-
٥- شیعه، امام معصوم علیه السلام کو سیاسی مرجع ، اجتماعی مسائل میں سب سے برتر رهبر اور فیصله کر نے کی صلاحیت کا مالک جانتے هیں اور اس کی مکمل اطاعت کر نا اپنے لئے واجب جانتے هیں-
٦- شیعه، امام معصوم علیه السلام کو علمی مسائل میں ، عالم ترین شخص مانتے هیں-لیکن افسوس که دوسرے اسلامی مذاهب ، من جمله مالکی و حنفی اس قسم کا اعتقاد نهیں رکھتے هیں اور اهل بیت و ائمه معصو مین علیهم السلام کے بارے میں صرف محبت اور رابطه رکھنے پر اکتفا کر تے هیں-
٧- شیعوں کی خصوصیات میں سے امام علی اور اهل بیت علیهم السلام کی مکمل پیروی کر نا هے، اس پیروی کی اسلام کے مطابق کافی اهمیت هے- بهت سی روایتوں میں ، جنھیں اهل سنت نے بھی نقل کیا هے، لوگوں کے اعمال کو قبول کر نے کے سلسله میں خدا وند متعال کا معیار و شرط حضرت علی علیه السلام کی ولایت کو قبول کر نا ، بیان کیا گیا هے-[2]
٨- شیعه، امامت کو ایک منصب الهی اور تمام ائمه معصومین کو خداوند متعال کی طرف سے منصوب جانتے هیں-
حضرت رسول اکرم صلًی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا هے:" امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب کے چهرے پر نظر ڈالنا ، عبادت هے، اور ان کی دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنے کے بغیر کسی کا ایمان قبول نهیں کیا جائے گا –"[3]
اس کے علاوه اهل سنت علمانے نقل کیا هے که:
" پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے فر مایا: یاعلی(ع) ! اگر کوئی حضرت نوح علیه السلام کی عمر کے برابر زندگی گزارے اور کوه احد کے برابر سونا رکھتا هو اور اسے خدا کی راه میں خیرات کرے اور اس کی عمر اتنی لمبی هو که ایک هزار بار پیدل حج پر چلا جائے ، اس کے بعد (مکه میں ) صفا ومروه کے در میان مظلومانه حالت میں قتل کیا جائے ، لیکن ،اے علی ! اگر وه تیری ولایت نه رکھتا هو تو اس تک بهشت کی بو بھی نهیں پهنچے گی اور وه هر گز بهشت میں داخل نهیں هو گا-"[4] اس روایت سے معلوم هو تا هے که، بنیادی طور پر ایمان ( عبادتی اعمال کی بات هی نهیں ) کے قبول هو نے کی شرط ولایت اور برائت هے-
لیکن علی علیه السلام کی ولایت کا مطلب کیا هے ، اس کو قرآن مجید میں علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی آیات سے سمجھنا چاهئے – قرآن مجید میں ارشاد هوا هے : " ایمان والو !بس تمھارا ولی الله هے اور اس کا رسول اور وه صاحبان ایمان جو نماز قائم کر تے ھیں اور حالت رکوع میں زکٰوۃ دیتے هیں-"[5]
اس میں کوئی شک نهیں هے که آیه شریفه میں لفظ " ولی" دوست یا ناصر اور یاور کے معنی میں نهیں هے ، کیو نکه ولایت ایسے افراد کے ساتھـ مخصوص طور پر دوستی اور مدد کر نے کے معنی میں نهیں هے جو نماز پڑھتے هیں اور رکوع کی حالت میں زکوه دیتے هیں ، بلکه دوستی ایک عام حکم هے جس میں تمام مسلمان شامل هیں ، تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دوستی کر نی چاهئے اور ایک دوسرے کی مدد کر نی چاهئے ، حتی که ان لوگوں کے ساتھـ بھی جن پر زکوه واجب نهیں هے اور بنیادی طور پر کوئی چیز نهیں رکھتے هیں که زکٰوۃ دیدیں ، انھیں بھی ایک دوسرے کے دوست اور ھمدم و یاور هو نا چاهئے رکوع کی حالت میں زکٰوۃ دینے کی بات هی نهیں –
یهاں پر واضح هو تا هے که مذکوره آیت میں " ولی" سے مراد مادی و معنوی سر پرستی اور قیادت ، خاص کر جبکه یه ولایت پیغمبر خدا صلی الله علیه وآله وسلم اور خداوند متعال کی ولایت کی فهرست میں قرار پائی هے اور ایک هی جمله میں ببان هوئی هے-
بهت سی اسلامی کتابوں اور اهل سنت کے منابع میں ، مذکوره آیه شریفه کے بارے میں متعدد روایتیں نقل هو ئی هیں که یه آیه شریفه حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے – ان میں سے بعض روایتوں میں حضرت علی علیه السلام کے ذریعه رکوع کی حالت میں انگوٹھی کو زکوه کے طور پر دینے کا اشاره هوا هے اور بعض میں اس کا اشاره نهیں کیا گیا هے اور صرف اس آیت کے علی علیه السلام کی شان میں نازل هو نے کے اشاره پر اکتفا کیا گیا هے-[6]
اگر کوئی شخص امامت و رهبری کے مسئله پر شیعه نقطه نظر سے غور کرے اور امامت و رهبری کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد رکھتا هو تو اس کی زندگی میں ایک غیر معمولی تبدیلی رونما هو گی اور وه دینی سوالات اور مشکلات کا حل هر کسی سے نهیں پوچھے گا بلکه وه سیاسی مسائل میں اپنے اختیارات کی باگ ڈورهر ایک کے هاتھـ نهیں دے گا اور همیشه امام معصوم (ع) کا مطیع اور فرمانبردار هوگا-
اگرچه تمام مذاهب اسلامی کے پیرو حضرت علی علیه السلام اور ان کے فرزندوں (ائمه معصومین)کے ساتھـ عقیدت ، محبت اور مودت رکھتے هیں، یکن قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے مدنظر مکمل معنی میں ولایت صرف مذهب تشیع جعفری اثنا عشری میں پائی جاتی هے اور هر مسلمان کا فرض هے که وه اس مکتب کا انتخاب کرے جو قرآن مجید اور سنت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے زیاده نزدیک هو – اگر اهل سنت بھی اسی عقیده کو قبول کریں گے یعنی قرآن مجیداور احادیث کے ارشادات کے مطابق ائمه اطهار علیهم السلام کی ولایت و مرجعیت کو علمی، سیاسی اور دینی ، غرض تمام جهات سے قبول کریں گے تو امت اسلامیه میں پیدا هوا تفرقه اور دوری ختم هو جائے گی-
کیونکه هم تاریخ میں پڑھتے هیں که مسلمانوں کا ایک گروه "قدری" اور دوسرا گروه تفویضی (ع) بن گیا هے، یه سب ائمه اطهار علیهم السلام سے دوری اختار کر نے کا سبب هے، ورنه اس قسم کے باطل عقائد کا مسلمانوں میں رواج پیدا نهیں هوتا اور مسلمان اس طرح گمراهی سے دوچار نهیں هوتے-
اس لئے اگر اهل سنت بھائی امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریات کو قبول کریں ان کے بارے میں اعتقاد وعمل کا مظاهره کریں ، تو وه بھی شیعه هوں گے اور ظاهر هے که انھیں دیکھنا چاهئے که اهل بیت علیهم السلام نے زندگی کے لئے کونسے احکام بیان کئے هیں اور شرعی لحاظ سے انھیں کن احکام پر عمل کر نا چاهئے-
اس سلسله میں مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے ( پروفیسر هنری کربن کے علامه سید محمد حسین طباطبا ئی سے مذاکرات ومکاتبات پر مشتمل)کتاب" شیعه" اور سوال نمبر ١٠٠٠ کا جواب مطالعه کر نا چاهئے- [7]
[1] -بحار الانوار ج :٣٦ص:٣٦٢-
[2] - مناقب خوارزمی ،١٩و ٢٥٢-
[3] - مناقب خوارزمی ء١٩و٢١٢:کفایه الطالب ، گنجی شافعی ، ٢١٤-" ---النظر الی وجه امیرالمٶمنین علی بن ابیطالب عباده وذکره عباده ولا یقبل الله ایمان عبدالا بولایته والبرائه من اعدائه"
[4] -" --- ثم لم یوالیک یاعلی لم یشم رائحه الجنه ولم ید خلها " مناقب ،خطیب خوارزمی ،مقتل الحسین (ع) خوارزمی، ١/٣٧-
[5] - سوره مائده ،٥٥، "انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلاه ویٶتون الزکواه وهم راکعون-
[6] - تفسیر نمونه ،ج ٤،ص٤٢٤و ٤٢٥-
[7]- صدر اسلام میں اهل سنت کے در میان دو مکتب فکر تھے ، ان میں سے ایک گروه کے لوگ انسان کے تمام افعال کو خداوند متعال کے ناقابل تغییر اراده سے متعلق جانتے تھے اور انسان کو اپنے افعال میں مجبور جانتے تھے اور انسان کے لئے اختیار و اراده کے قائل نهیں تھے دوسرے گروه سے متعلق افراد انسان کو اپنے افعال میں آزاد جانتے تھے اور اسے خدا وند متعال کے اراده سے مر بوط نهیں جانتے تھے اور اسے "قضا وقدر" کے حکم سے خارج جانتے تھے – لیکن اهل بیت اطهار علیهم السلام کی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید کی تعلیمات کے مترادف هیں ، انسان اپنے افعال میں مختار هے لیکن بالکل آزاد نهیں هے بلکه خدا وند متعال اختیار کی راه سے انسان کے فعل کا طالب هے- دوسرے الفاظ میں خدا وند متعال علت تامه مجموع اجزاء کی راه سے ، جن میں سے ایک انسان کا اراده و اختیار هے ، فعل کا طالب هے اور ضروری جانتا هے که نتیجه میں فعل ضروری اور انسان بھی اس میں مختار هے، یعنی اجزائے علت کے مجموع کی به نسبت فعل خود ضروری هے اور ان میں سے ایک جزو کی به نسبت ، که خود انسان هے، فعل اختیار وممکن هے – سید محمد حسین طباطبائی ( ١٣٤٨ھ ش)" اسلام میں شیعه" ص٧٩، شرکت انتشار-
اس موضوع کے بارے میں درج ذیل کتابیں مطالعه کے لئے مفید هیں:
الف) " انسان شناسی" تالیف محمود رجبی ، فصل ٥و٦ ،موسسه آموزشی وپزوھشی امام خمینی (رح)
ب) " آموزشی فلسفه " تالیف : استاد مصبا ح یزدی ، ج٢، درس ٦٩سازمان تبلیغات اسلامی –
ج) " عدل الهی" استاد شهید مرتضی مطهری ، انتشارات اسلامی –