Please Wait
12049
ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بارے میں بعض مترجمین نے مغالطہ کیا ہے اور آپ نے وہی ترجمے دیکھے ہیں، کیونکہ اس حدیث کے عربی متن "صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ وَ الصِّيَام" [1] پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ{ص} کے کلام سے مراد یہ ہے کہ دو افراد کے درمیان صلح کرانا بہت سی نمازوں اور روزوں سے برتر ہے اور اس سے مراد ایک سال کی نمازیں اور روزے یا تمام نمازیں اور روزے نہیں ہیں، کیونکہ لفظ "عامۃ" متعدد مواقع پر اکثر کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسے: "عَامَّةُ رِدَائِهِ مَطْرُوحٌ بِالْأَرْض"[2] " اس کا اکثر لباس زمین پر گھسٹتا ہے:۔ اور "وَ قَدْ ذَهَبَ عَامَّةُ النَّهَار"[3] " اکثر دن گزرا تھا"۔
اس بنا پر رسول خدا{ص} کے اس کلام کے معنی "مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے اور ان کے درمیان اختلافات کو دور کرانے کا اجر و ثواب اکثر مستحب نماز اور روزوں سے زیادہ ہے۔" چنانچہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ، افراد کے درمیان صلح کرانا ایسا نیک کام ہے کہ دوسرے بھی اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں ، لیکن {مستحب} نماز اور روزے ایسے انفرادی امور ہیں جن کا دوسروں کو فائدہ نہیں ملتا ہے، اس بنا پر ان دو اعمال کے درمیان موازنہ کرنے میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا اجر {مستحب} نماز و ورزوں سے زیادہ ہے[4]۔
قابل ذکر ہے کہ یہ مسئلہ اختلاف کی قسم اور مختلف افراد اور بجا لائی جانے والی نمازوں کی کیفیت پر منحصر ہے،مثال کے طور پر بعض اختلافات جزئی ہوتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ان کے بارے میں جلد ہی صلح انجام پاتی ہے، لیکن بعض اختلافات خوں ریزی اور زندگی درہم برہم ہوجانے کا سبب بنتے ہیں، کہ ممکن ہے مذکورہ روایت اس قسم کی صلح و صفائی کے بارے میں ہو اور دوسری تمام {جزئی} صلح و صفائی اس میں شامل نہ ہوں۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے ملاحظہ ہو: موضوع: " اسلام و اصالت صلح"، سوال : 3751{ سائٹ: 3994}
[1]نهج البلاغة، ص 421، انتشارات دار الهجرة، بدون تاریخ، قم.
[2]کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 1، ص 361، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[3]شیخ حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 10، ص 11، مؤسسة آل البیت، قم، 1409 ھ.
[4]ملاحظہ ہو. بیهقی، قطب الدین محمد بن حسین،حدائق الحدائق، ج 2، ص 507، بنیاد نهج البلاغة انتشارات عطارد، قم، 1375 ھ ش.