Please Wait
10481
کمزور کے قوی اور مضبوط کرنے کو شفاعت کهتے هیں۔ اور شفیع اسے کها جاتا هے جو ضرورتمندوں کی مدد کرتا هے اور اس کو اعتدال اور بے نیازی کی حد تک پهنچاتا هے۔
قیامت میں شفاعت صرف الله سے مخصوص هے اور کچھ لوگوں کو بھی اجازت دی گئی هے که وه دوسروں کی شفاعت کریں۔ اس سلسله میں وارد هونے والی روایات سے پته چلتا هے که قیامت کے دن شفاعت کرنے والے بهت هیں۔ مثلا انبیاء الهی، علماء، شهدا، ملائکه، مؤمنین، اعمال صالح اور ائمه علیهم السلام نیز قرآن مجید۔
شفاعت کا حق صرف اسی کو هوگا جو اذن الهی کے علاوه الله، انبیا، قیامت اور ان سب چیزوں پر مستحکم ایمان رکھتا هو جو پیغمبر پر نازل هوئی هیں مثلا شفاعت کی حقانیت اور یه که اس ایمان پر آخر زندگی تک ثابت قدم رهے۔
جواب کے مکمل طور پر واضھ هونے کے لئے چند چیزوں پر نظر رکھنا ضروری هے:
۱۔ شفاعت کے معنی: شفاعت کسی کمزور کو مضبوط اور قوی کرنے کے معنی میں اور شفیع اسے کها جتاتا هے جو کسی ضرورتمند کی مدد کرتا هو اور اسے اعتدال اور بے نیازی تک پهنچادے۔ [1]
۲۔ شفاعت کرنے والے کون هیں
الف: قرآن کی نظر میں شفاعت کرنے والے
قرآن کریم کی رو سے قیامت کی شفاعت الله سے مخصوص هے۔ [2] الله جسے چاهے شفاعت کی اجازت دیتا هے ۔جیساکه علم غیب بھی الله سے مخصوص هے لیکن وه جسے چاهے دیتا هے اور اپنے رسول کو دیا هے۔ [3] شفاعت بھی الله سے مخصوص هے اور الله نے اسے اپنے رسول کے علاوه کچھ دوسرے بندوں کو بھی دیا هے۔
شفاعت کی دو قسمیں هیں:
۱۔ تکوینی
۲۔ تشریعی
شفاعت تکوینی، کائنات کے تمام اسباب و علل سے وقوع پذیر هوتی هے اور تمام اسباب الله کے نزدیک شفیع هیں، چونکه وه الله اور اپنے مسبب کے درمیان رابط هیں۔
شفاعت تشریع اور قانونی کی دو قسمیں هیں:
۱۔ جس کا اثر دنیا میں هے اور جو الهی مغفرت اور قرب الهی کا سبب بنتی هے اور جس میں الله اور بندے کے درمیان شفیع ایک واسطه بن جاتا هے۔ اس شفاعت میں چند گروه هیں: اول؛ گناهوں سے توبه کرنے والے، [4] دوم؛ رسول الله پر ایمان رکھنے والے، [5] سوم؛ انسان کا عمل صالح، [6] چهارم؛ قرآن کریم، [7] پنجم؛ جس چیز کا بھی تعلق کسی نیکی سے هے جیسے مسجد، مقدس مقامات، ایام الله اور انبیاء، [8] ششم؛ ملائکه، [9] هفتم؛ وه مؤمنین جو اپنے لئے اور اپنے دینی بھائیون کے لئے استغفار کرتے هیں۔ [10]
۲۔ وه شفاعت کرنے والے جو قیامت میں لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ قرآن سے یه استفاده هوتا هے که قیامت میں شفاعت کرنے والے بھی بهت سے هیں؛ مثلا انبیاء الهی، [11] علماء، شهداء، ملائکه اور مومنین۔ [12]
ب: روایات کی رو سے شفاعت کرنے والے
اس سلسله میں شیعه سنی دونوں کے یهاں روایات وارد هوئی هیں جن میں سے کچھ کوک نمونے کے طور پر هم یهاں پر ذکر کرتے هیں:
۱۔ رسول الله صصص نے فرمایا: قیامت کے دن مومنین حضرت آدم کے پاس جاکر کهیں گے: اے بابا همارے لئے جنت کے دروازوں کو کھولئے! حضرت آدم کهیں گے: مجھ میں یه لیاقت نهیں هے، وه لوگ حضرت ابراهیم کے پاس جائیں گے وه بھی کهیں گے که میرے اندر اس کی اهلیت نهیں هے حضرت موسی و عیسی بھی یهی جواب دیں گے اور انھیں میرے پاس بھیج دیں گے۔ میں اٹھوں گا اور الله سے اجازت لونگا اور تم مسلمانوں کو بجلی کی رفتار سے پل صراط سے نکال لےجاؤگا۔ [13]
۲۔ اس سلسله میں آپ فرماتے هیں: هر پیغمبر الله سے کچھ درخواست رکھتا هے لیکن میں نے اپنی درخواست کو قیامت کے لئے روک لیا هے اور وه میری امت کی شفاعت هے۔ [14]
۳۔ امام صادق علیه السلام فرماتے هیں: جو تین چیزوں کا انکار کرے وه همارے شیعوں میں سے نهیں هے: معراج رسول الله صصص، قبر کے سوالات اور شفاعت۔ [15]
۴۔ امام صادق علیه السلام نے فرمایا: رسول الله صصص کو اپنی امت کی شفاعت کی اجازت حاصل هے۔ هم بھی اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور همارے شیعه بھی اپنی اهل کی شفاعت کریں گے۔ [16]
۳۔ شفاعت کے شرائط:
دینی تربیت کا تقاضا یه هے که ان اشخاص کو معین نه کی اجائے جن کی شفاعت هونا هے بلکه مبهم صورت رکھی جائے۔ [17] جیسا که قرآن نے بھی شفاعت کئے جانے والے افراد کو معین نهیں کیا هے بلکه ان کے اوصاف و خصوصیات کو بیان کیا هے اور کها هے: هر انسان اپنے اعمال کا گروی هے مگر اصحاب یمین جنت میں هیں اور مجرمین کو ڈھونڈ کر ان سے پوچھیں گے تم کیسے دوزخی هوگئے؟ وه کهیں گے: هم نماز گزاروں میں سے نهیں تھے اور مسکینوں کو کھانا نهیں کھلاتے تھے اور همیشه لوگوں کے بیهوده کاموں میں شامل هوجایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یهاں تک که هم تک یقین آگیا یهاں پر اب ان کو کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت کام نه آئے گی۔ [18]
یه آیت کهتی هے: که اهل دوزخ ان چار صفتوں کے سبب یعنی ترک نماز، ترک انفاق، دنیا کے بیهوده کاموں میں شمولیت نیز قیامت کو جھٹلانے کی وجه سے جهنمی هوئے هیں۔ یه چار کام ایسے هیں جو دین کی بنیادوں کو منهدم کردیتے هیں۔ اس کے برعکس اقامه نماز، انفاق، ترک دنیا اور عقیده قیامت دین خدا کو قائم رکھتے هیں چونکه دینداری کا مطلب یه هے که معصوم اور پاک رهبروں کی اطاعت کی جائے اور یه صرف اس وقت هو سکتا هے جب دنیا اور اس کی آرائشوں سے پرهیز کیا جائے اور الله کی ملاقات کے لئے تیاری کی جائے اور اگر یه دو صفتیں عملی هوجائیں تو بیهوده لوگوں سے بھی دوری هوسکتی هے اور قیامت کی تکذیب سے بھی۔
ان دونوں صفتوں کا لازمه یه هے که الله کی طرف پیشرفت هو اور سماج کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے یا دوسرے لفظوں میں پهلی صفت کو نماز اور دوسری کو انفاق کها جاسکتا هے۔ لهذا دین کا قیام و قوام ان چار صفتوں پر عمل کرنے سے هے اور ان چار صفتوں سے دین کے بقیه ارکان بھی حاصل هوتے هیں چونکه جو توحید پرست نهیں هے یا نبوت کا منکر هے وه ان چار صفتوں کا حامل نهیں هوسکتا۔ [19]
نتیجه یه هوا که وههی شفاعت کا حقدار هے جس میں مندرجه زیل شرائط پائے جاتے هوں:
۱۔ الله، ابنیاء اور قیامت نیز انبیاء کی لائی هوئی چیزوں پر سچا ایمان رکھنا چونکه دوزخ میں جب کافروں سے یه سوال کیا جائے گا که تم دوزخ میں کیوں گرفتار هوگئے تو قرآن کے مطابق ان کا جواب یه هوگا که [فَمَا لَنَا مِن شَافِعِین] همارا کوئی شفیع نهیں هے۔ لهذا کفار کے یهاں شفاعت کی قابلیت نهیں هے۔ سوره انبیاء آیه ۱۸ میں هے که: انبیاء اور ملائکه شفاعت نهیں کریں گے مگر وه جنھیں اجازت دی گئی هو۔ [20] امام رضا علیه السلام سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: دین کے مسئله میں پسند مراد هے۔ لهذا شفاعت گنهگاروں کی هوگی اس شرط کے ساتھ که دین اور عقائد میں قابل قبول هوں اور منکرین، ناصبین اور عداوت رکھنے والے اس سے محروم هیں۔
۲۔ جو لوگ شفاعت کی حقانیت پر ایمان رکھتے هوں۔ رسول الله صصص نے فرمایا: الله اس کی شفاعت قبول نهیں کرے گا جو میری شفاعت پر یقین نه رکھتا هو۔ [21]
۳و۴۔ جو لوگ نماز اور فقراء پر انفاق والے هوں۔
جیساکه سوره مدثر [22] میں ترک نماز، فقراء کی مدد نه کرنے اور قیامت کو جھٹلانے کو دوزخ جانے کا سبب بیان کیا گیا هے۔ امام صادق علیه السلام نے فرمایا هے: وه شخص هماری شفاعت تک نهیں پهنچ سکتا جو نماز کو هلکا سمجھے۔ [23]
بهر حال شفوعت کوئی کھلا اور بے قید و شرط موضوع نهیں هے بلکه اس کے کچھ شرائط هیں۔ گناه اور جرم کے بھی کچھ شرائط هیں، شفاعت کرنے والے کے بھی اور اسی طرح شفاعت کئے جانے والے کے بھی۔ جو اس بات پر ایمان رکھتے هیں اور اس موقع سے استفداه کرنا چاهتے هیں انھیں اس کے شرائط پورے کرنا چاهئیں۔ اور ایسے گناهوں سے دوری اختیار کریں جو شفاعت میں مانع هیں مثلا ظلم، شرک وغیره۔ یا اپنے کردار کو ایسا بنائے که شفاعت کے قابل هوسکے۔
مزید معلومات کے لئے:
۱۔ اشاریه: مفهوم شفاعت در اسلام، سوال ۳326 (سایت: 3619)
۲۔ اشاریه: تلاش و نقش آن در سر نوشت آخرت (احسان و نیکی به مردگان)، سوال 3005 (سایت: 3265)
۳۔ اشاریه: راه های پاک شدن از گناه، سوال 3797 (سایت: 4048)
۴۔ اشاریه: نفی مالکیت نفع و ضرر از پیامبر و طلب شفاعت و شفا از ایشان، سوال۸۴ (سایت: )
۵۔ اشاریه: شفاعت و رضای الهی، سوال ۱۲۴ (سایت: )
[1] المیزان، ج۱، ص۱۵۷
[2] بقره/ ۲۵۶؛ زمر/۴۴
[3] جن/۲۷
[4] زمر/۵۴
[5] حدید/۲۸
[6] مائده/۹
[7] مائده/۱۶
[8] نساء/۶۴
[9] مومن/۷
[10] بقره/۲۸۶
[11] انبیاء/۲۸
[12] زخرف/۸۶
[13] بحار، ۸/
۳۵ [14] الاختصاص، شیخ مفید، ۳۷
[15] من انکر ثلاثۃ اشیاء فلیس ممن شیعتنا المعراج و المسئلۃ فی القبر و الشفاعۃ بحار، ۶/۲۲۳
[16] ایضا۴۸
[17] المیزان۱/۱۵۹
[18] کلُُّ نَفْسِ بِمَا کَسَبَتْ رَهِینَةٌ إِلَّا أَصحَْابَ الْیَمِینِ فىِ جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِینَ مَا سَلَکَکمُْ فىِ سَقَرَ قَالُواْ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَ کُنَّا نخَُوضُ مَعَ الخَْائضِینَ وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتىَّ أَتَئنَا الْیَقِینُ فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ؛ مدثر ۴۰تا۴۸
[19] المیزان، ترجمه، ۱/۲۵۹
[20] ولایشفعون الا لمن ارتضی
[21] من لم یومن بشفاعتی فلا اناله الله شفاعتی؛ بحار، ۸/۳۴
[22] مدثر ۴۰تا۴۸
[23] ان شفاعتنا لا تنال مستخفا بالصلوۃ، ۴/۲۵