Please Wait
15086
قرآن مجید کی کئی آیات میں ، و رفعنا فوقکم الطور " کی تعبیریں اوراس کے مشابہ تعبیریں بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کی گئی ہیں ، تفسیر کی کتابوں کے مطابق یہ آیات ایک تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو بنی اسرائیل کی طرف سے خدا کے احکام کی مخالفت کی وجہ سے حضرت موسی{ع} کے زمانے مہں واقع ہوا ہے اور خداوند قادر متعال کوہ طور کو بنی اسرائیل کے سروں کے اوپر سے حرکت میں لایا ہے ، خداوند متعال کی لایزال قدرت کے پیش نظر، کہ اس نے لاکھوں اور کروڑوں ستارے ، نظام شمسی اور کہکشان پیدا کئے ہیں اور انھیں معین فاصلوں کے درمیان فضا میں حرکت دی ہے ، قرآن مجید کی اس آیت میں بیان کئے گئے امر کا وقوع عقل و علم کے لحاظ سے ناممکن نہیں ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۶۳ میں بنی اسرائیل کے بارے میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
۱۔ بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لینا
اس عہد و پیمان کے بعض مطالب قرآن مجید کی آیات [1] اور توریت میں بھی بیان کئے گئے ہیں ، جو یہ تھے کہ: پروردگار عالم کی وحدانیت ، تمام انبیائے الھی کا ایمان ، ماں باپ اور اقرباء اور یتیمیوں اور حاجتمندوں کے ساتھ نیکی ، خدا کی راہ میں صدقہ دینا اور انفاق کرنا ، نیک گفتار ، نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا، خون ریزی سے پرہیز کرنا وغیرہ ۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۲ میں ان کے لئے ضمانت دی جاتی ہے کہ اگر اس عھد و پیمان پر عمل کریں گے تو وہ اھل بہشت ہوں گے -
۲۔ کوہ طور کا بنی اسرائیلیوں کے سر پر لٹکنا:
تفسیر کی کتابوں میں جو کچھ آیا ہے، اس کے مطابق ، بنی اسرائیل کے سر پر کوہ طور کا قرار پانا ایک حقیقت تھی کہ یہ واقعہ حضرت موسی {ع}کے زمانہ میں پیش آیا ہے اور یہ وہ موضوع نہیں ہے جو ابتدائے خلقت میں واقع ہوا ہو، قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید نے اپنی ایات میں سے چند آیات میں بنی اسرائیل کے بارے میں " و رفعنا فوقکم الطور " کی تعبیر اور اس کے مشابہ تعبیرات سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [2]
طبرسی نے " ابن زید" کے قول سے یوں نقل کیا ہے کہ :" جب حضرت موسی {ع}کوہ طور سے لوٹے اور اپنے ساتھ توریت لائے تو، اپنی قوم میں اعلان کیا کہ میں آسمانی کتاب اپنے ساتھ لایا ہوں جس میں دینی احکام اور حلال و حرام کے احکام ہیں ، یہ وہ احکام ہیں جنھیں خداوند متعال نے تمھارے کام کا پروگرام قرار دیا ہے۔ اسے قبول کرو اور اس کے احکام پر عمل کرو۔ یہودیوں نے اس بہانے سے کہ حضرت موسی {ع}نے ان کےلئے مشکل تکالیف لائی ہیں ، نافرمانی اور سرکشی کرنے کا فیصلہ کیا ، خداوند متعال نے بھی فرشتوں کو مامور کیا تاکہ کوہ طور کے ایک بڑے ٹکڑے کو ان کے سروں کے اوپر قرار دیں ، اس وقت حضرت موسی {ع}نے اعلان کیا: " اگر تم لوگ عھد و پیمان کرو گے اور خدا کے احکام پر عمل کرو گے اور نافرمانی و سرکشی کے بارے میں توبہ کرو گے ، تو یہ عذاب اور سزا تم لوگوں سے اٹھالی جائے گی ورنہ تم سب ہلاک ہوجاو گے ، انھوں نے ہتھیار ڈالدئے اور توریت کو قبول کیا ور خداوند متعال کے لئے سجدہ کیا، جبکہ ہر لمحہ ان کو انتظار تھا کہ پہاڑ ان کے سروں پر گرجائے گا، لیکن توبہ کی برکت سے بالآخر یہ عذاب الھی ان کے سروں سے ٹل گیا۔ [3]
اس بنا پر مذکورہ آیہ شریفہ انبیاء کے میثاق اور احکام کے خلاف کافروں کی نافرمانی اور سرکشی پر تنبیہ کے سلسلے میں خداوند متعال کی عظمت و قدرت کی نشانی بیان کرتی ہے جو تاریخ میں واقع ہوئی ہے۔ اور خداوند متعال کی لا یزال قدرت کے پیش نظر لاکھوں اور کروڑوں ستارے ، نظام شمسی اور کہکشانوں کو پیدا کیا ہے اور یہ سب ایک معین فاصلے پر فضا میں بڑی سرعت کے ساتھ حرکت میں ہیں اس لئے اس قسم کا واقعہ رونما ہونا کہ جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے [ پورا کوہ طور یا اس کا ایک حصہ بنی اسرائیل کے سروں پر سے گزرے گا] عقل وعلم کے لحاظ سے ناممکن نہیں ہے اور یہ امر کوئی تعجب کا سبب نہیں ہے - البتہ ممکن ہے ، کہ یہ عام طور پر ایک غیر معمولی امر ہو۔ لیکں قابل بیان ہے کہ یہ حادثہ انبیاے الھی کے دوسرے معجزوں کے مانند [جیسے حضرت عیسی کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرنے اور حضرت صالح کے پہاڑوں میں سے اونٹ کو نکالنے وغیرہ جیسے واقعات، جو سب غیر معمولی کام تھے اور خدا کے حکم سے عام لوگوں کے سامنے واقع ہوئے ہیں۔
یہاں پر اس نکتہ کی یاد دہانی کرنا بھی ضروری ہے کہ ، بنی اسرائیل کے سروں پر کوہ طور قرار پانے کی توصیف میں بعض مفسرین اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا کے حکم سے ، کوہ طور اپنی جگہ سے جدا ہوگیا اور ایک سائبان کے مانند ان کے سروں پر قرار پایا [4]۔ یہ نظریہ اس آیت سے لیا گیا ہے کہ ارشادہوتا ہے:" اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے توریت پر عمل کرنے کا عھد لیا اور تمھارے سروں پر کوہ طور کو لٹکا دیا کہ اب توریت کو مضبوطی سے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کر رکھو شاید اس طرح پرھیزگار بن جاو۔ [5]
البتہ اس حادثہ کے جزئیات کے بارے میں، کچھ اور ممکنات پیش کئے گئے ہیں کہ اس پہاڑ پر ایک شدید زلزلہ واقع ہوا اور پہاڑ ایسے ہلا کہ جو افراد پہاڑ کے نیچے تھے ، انھوں نے اس پہاڑ کے اوپر والے حصوں کے سایہ کو اپنے اوپر مشاہدہ کیا اور احتمال دیتے تھے کہ ہر لمحہ ممکں ہے کہ وہ پہاڑ ان کے سروں پر گرجائے گا۔ لیکں خداوند متعال کی مہربانی سے زلزلہ رک گیا اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہا-[6]
اور یا یہ کہ " یہ احتمال بھی ہے کہ خدا کے حکم سے پہاڑ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا زلزلہ اور شدید بجلی کی وجہ سے اپنی جگہ سے جدا ہوا اور اں کے سروں کے اوپر سے اس طرح گزرا کہ انھوں نے چند لمحوں تک اسے اپنے سروں پر مشاھدہ کیا اور احتمال دیتے تھے کہ ان کے سروں پر گرجائے گا۔[7] لیکن ایسا لگتا ہے کہ پیش کی گئی بعض توصیفات او توجیہات ، اس ضمن میں تھیں کہ اپنے مخاطبین کو باور کرائیں کہ یہ معجزہ الہی ، کوئی خاص حیرت ناک اور عجیب نہیں ہے اور انسان کی عقل کے معیاروں کے متناسب ہے۔
ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو موضوع عقل کے لحاظ سے نا ممکن نہ ہو وہ کسی توجیہ کے بغیر پروردگار کی طاقت کے دائرہ میں ہوگا اور ایک معجزہ کے جزئیات کی توصیف میں صرف شرعی مستندات پر تکیہ کرنا چاھیئے یا مسلم عقلی اصولوں سے استفادہ کرنا چاھیئے -
[1] مائده، 12.
[2] بقره،63؛ بقره 93؛ نساء 154؛ اعراف، 171.
[3] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص 294.، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 ھ ش.
[4] طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان في تفسير القرآن، ج 4، ص 764 (ذيل آيه 171- اعراف)، انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1372ھ ش.
[5] اعراف، 171.
[6] رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، ذيل آيه مورد بحث. به نقل از تفسیر نمونه، ج1، ص: 294
[7]مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص 294.، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374ھ ش