Please Wait
10137
"سنگسار" یا "رجم" کا رواج اسلام سے پهلے والے اقوام و ادیان میں بھی تھا ـ
اسلام میں بھی "سنگسار" ایک قسم کی سزا اور حد شرعی کے عنوان سے مسلم اور قطعی هے ـ یه سزا بعض انتهائی سنگین جرائم کے لئے معین کی گئى هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیم و آله و سلم سے نقل کی گئی بهت سی روایتوں میں اس کی تاکید کی گئی هے ـ
اس قسم کی سزا کے نفاذ سے اسلام کا مقصد، معاشره کی اصلاح، جرم واقع هونے کی وجه سے پیدا شده نا آرامیوں کا اندمال، مجرم کی تطهیر اور اس جرم کے سبب مرتکب هوئے گناهوں کی بخشش، معشره میں عدل و انصاف کا نفاذ، بڑے اور کمر توڑ گمراهیوں کو روکنا اور معاشره کو بچانا هے ـ
اسلام کے مطابق زنائے محصنه (شوهروالى عورت یا بیوىوالے مرد کے زنا) کى سزا، خاص شرائط کے پیش نظر سنگسار(رجم) هےـ
اگر کهیں پر اس حکم یا دوسرے احکام کا نفاذ اسلام کى توهین کا سبب بنے تو ولى فقیه یا حاکم شرع، اسلام اور اسلامى نظامى کى مصلحتوںکے پیش نظر اس حکم کےنفاذ کى کیفیت میں تصرف کرسکتا هے یا اس کى اصل میں تبدیلى لا سکتا هےـ
سنگسار یا "رجم" کے تاریخى سابقه اور ریکاڈ کے بارے میں آگاهى حاصل کرنے کے لئے اسلام سے پهلے والى تاریخ کى کتابوں اور ادیان کا مطالعه کرنا ضرورى هےـ اس وقت دستیاب گزشته ادیان کى قدیمى ترین کتابوں میں،"رجم" (سنگسار)کے بارے میں مجرم افراد کى سزا کے طور پر نام لیا گیا هےـ تورات میں اس سزا کا بارها ذکر کیا گیا هےاور شاى سے پهلے زنا کرنے والى لڑکى کے بارے میں تورات میں آیا هے:
"...اس کے بعد لڑکى کو اس کے باپ کے گھر میں لایاگیا تاکه شهر کے لوگ اسے سنگسار کریں یهاں تک وه مرجائے، کیونکه بنى اسرایئل میں اس نے قباحت کى تھى ، اپنے باپ کے گھر میں زنا کیا تھا،تاکه اس طرح اپنے درمیان سے شرارت کو دور کروـ[1]"
اس طرح شوهر والى عورت کے زنا اور اس کے برعکس کے بارے میں تورات میںآیا هے:"اگر کسى مرد کو شوهر والى عورت سے همبسترى کرتے هوئے پایا جائے یه دونوں (جس مرد نے اس عورت کے ساتھـ همبسترى کئى تھى اور وه عورت)مرجایئں،اس طرح بنى اسرایئل سے شرارت کو دور کرو."[2]
جب پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم نے مدینه هجرت کى، بعض یهودى زنا کا حکم پوچھنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کى خدمت میں حاضر هوئے ، تو سوره مائده کى آیات نمبر 14 اور اس سے مربوط بعد والى آیات نازل هویئںـ
واقعه یه تھاکه علاقه خیبر کى معروف و مشهور عورتوں میںسے ایک عورت نے اس علاقه کے اشراف مردوں میں سے ایک مرد کے ساتھـ زنا کیا تھا جبکه دونوں محصن (شادىسده)تھےـ لیکن یهودى علماء ان دونوں کے سماجى مقام و منزلت کى وجه سے انھیں سنگسار نهیں کرنا چاهتے تھےـ اس لئے پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کى خدمت میں حاضر هوئے تاکه اگر اس سے کم تر سزا کا حکم هو تو اس کو عملى جامه پهنایئں ، لیکن پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے بھى وهى حکم بیان فرمایا اور فرمایاکه یه حکم تورات ۤمیں بھى آیا هے،اس پر عمل کیوں نهیں کرتے هو؟ انهوں نے تورات میں اس حکم کے فوجود هونے سے انکار کیاـ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے یهودیوں کے "ابن هوریا" نامى ایک عالم کو بلوایا اور اسے قسم دینے کے بعد اس مطلب کے بارے میں اس سے سوال کیاـ اس نے بھى صراحت سے کها که یه حکم تورات میں موجود هےـ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم نے اس مرد و زن کو مسجد مدینه کے سامنے سنگسار کرایاـ [3]
اس حکم کے مطابق اسلام سے پهلے دوسرے ادیان اور اقوام کے درمیان کچھـ فرق کے ساتھـ قتل و رجم (سنگسار)کا حکم نافز هوتا تھاـ
اسلام میں سنگسار کا حکم:
اگر چه محصنه (شادىشده)عورتوں کے لئے سنگسار کا حکم قرآن مجید میں واضح نهیں هے، لیکن یه مسئله پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم کى سنت و سیرت سے ثابت هےـ
امام على علیه اسلام نے ایک عورت کے بارے میں کوڑے اور سنگسار کا حکم نافذ کرتے هوئے فرمایا: " میں نے اس کو خدا کى کتاب کے حکم کے مطابق کوڑے لگائے اور رسول الله کى سنت کے مطابق سنگسار کیاـ"[4] خلیفه دوم سے نقل کیا گیا هے که انهوں نے کها،"اگر میں اس چیز سے نه ڈرتا که لوگ یه کهیں گے که فلانى نے قرآن مجید میں ایک آیت کا اضافه کیا هے، تو میں رجم کى آیات کو لاتاکه"،"پیر مرد اور پیر زن اگر زنا کریں انھیں حتما سنگسار کرنا"(البته قرآن مجید میں اس آیات کے وجود کو تمام صحابه نے مسترد کیا هے، یهاں تک که دو افراد نے اس آیات کے وجود کى شهادت نهیں دى هے)[5]
زنائے محصنه(شادى شده مرد و زن کے زنا)کے عنوان سے سنگسار کا حکم آیاهے اور اس پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق هےـ[6] چونکه یه حکم اسلامى حدود میں هے ، اس لئے یه قابل مصالحت وشفاعت نهیں هے یهاں تک که طرفین کى شکایت یا کسى اور شخص کى شکایت کے بغیر بھى نافذ هونا چاهئےـ[7]
چونکه پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پیغمبر رحمت و مهربانى هیں، آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم زنائے محصنه انجام دینے والے افراد کى طرف سے آپ(ص)کے سامنے چار بار اقرارکرنے کے بعد حکم سنگسار کو نافذ کرنے میں اظهار ناراضى کرتے هوئے فرماتے تھے:" اگر یه افراد اقرار کے بجائے توبه کرتے ، تو ان کے لئے بهتر تھا (ماعز کا ماجرا)"ـ لیکن اگر یه جرم ثابت هوتا تو بادل ناخواسته اس کو نافز فرما تے تهھےـ
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم اور امام على علیه سلام کے زمانے میں سنگسار شده افراد کے واقعات اور اس سلسله میں نقل کى گئى روایتوں[8] سے معلوم هوتا هے که اسلام کا نظریه همیشه اس اصول پر تھا که اس گناه کو ثابت کرنے کے لئےانتها ئى سخت اور مشکل قیود و شرائط رکھـ کر اس زنائے محصنه کے اس گناه کو ثابت کرنے کے امکانات کو کم از کم حد تک پهنچادیا جائے اور یه حکم کم نافذ هو جائے تاکه اس کى قباحت بھى کم نه هوجائے اور افراد بھى سنگسار نه هو جایئں ـ
اسلامى جمهوریه ایران کے آیئن میں ، جو فقه شیعه کی بنیاد پر لکھا گیا هے، بھی زنائے محصنه کے ثبوت کے بارے میں یهى شرائط هیں، ان میں سے بعض کى طرف ذیل میں اشاره کیا جاتا هے:
1ـ دفعه نمبر 74: زنا، خواه سنگسار کا سبب بنے یا کوڈے مارنےکا، چار عادل مردوں کى شهادت یا تین عادل مردوں کى شهادت اور دو عادل عورتوں کى شهادت سے ثابت هوتا هےـ[9]
2ـ دفعه نمبر76: گواهوں کى شهادت، واضح ، بغیر ابهام اور مشاهده (آنکھوں سے دیکھتے) کے استناد پر هونى چاهئےـ
2ـ دفعه نمبر78: گواهوں کى گواهى کى بات میں زمان و مکان کے لحاظ سے خصوصیات بیان کرنے میں اختلاف نهیں پایاجانا چاهئے، ورنه تمام گواهوں کو تهمت لگانے کے جرم میں کوڈے لگائے جایئں گےـ
4ـ دفعه 79: گواهوں کو بیچ میں فاصلے ڈالے بغیر شهادت دینى چاهئے(ورنه تمام گواه "حد قزف" یعنى تازیانے کھانے کے مستحق هوں گے)[10]
حتى اگر ملزم اقرار کے بعد انکار کرے تو اس سے سنگسار (رجم) کى حد ساقط هوتى هےـ امام جعفر صادق علیه اسلام نے فرمایا هے:"اگر کوئى شخص ایسے گناه کا اقرار کرنا چاهئے ، جو حد جارى کرنے کا سبب بنتاهو، اور اس کے بعد انکار کرنے ،تو اس پر حد (تازیانه) جارى کرنا چاهیے ، مگر جو گناه (زنائے محصنه) سنگسار ،(رجم) کى حد جارى کرنے کا سبب بنتا هے،اس کا انکار کے بعد سنگسار نهیں کیا جا سکتا هےـ"[11]
سنگسار کا سبب بننے والے گناه کے ثابت هونے کے لئے اس قدر زیادئ اور سخت سرائط هیں که بعض لوگوں نے کها هے[12] که شائد کبھى اس قسم کا جرم ثابت نهیں هوگا، مگر یه که کوئى شخص ابنى عقل و اختیار سے اس کا اعتراف کرےـ
قابل توجه نکته یه هے که اس قسم کى سزا کو شرعی جواز دینے میں اسلام کا مقصد انتقام لینا اور تشدد ایجاد کرنا نهیں هے بلکه اسلام کے دوسرے قوانین کے مانند اس قسم کى سزاوں کو معین اور نافذ کرنے میں کچھـ بلند مقاصد هیں که ان میں سے چند کى طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
الف: معاشره کى اصلاح: جب قانون ایسا هو که (شرائط پورے هونے کى صورت میں) زنائے محصنه کے مرتکب افراد کو کسى لحاظ کے بغیر اس قسم کى سخت سزا دى جائے ، تو دوسرے لوگ جو اس قسم کا جرم کرنے کے خطره سے دوچار هونے والے هوں، شدید ترین سزا سے آگاه هونے کے بعد هر گز گناه کے مرتکب نهیں هوں گےـ
ب:ارتکاب جرم کے نتیجه میں پیدا هونے واکى ناآرامیوں کا عکاج: معاشره میں جو بھى جرم انجام پاتا هے وه ایک قسم کى ناآرامى پیدا کرتا هے جو معاشره کے نظم و ضبط کو درهم برهم کرنے کا سبب بن جاتا هے اور سماج کو مشکل اور اضطراب سے دوچار کرتا هےـ سزا کو جارى کرنے کا سب سے پهلا اثر، معاشره میں جرم انجام پانے کے نتیجه میں پیدا هونے والى نا آرامیوں کا اتدارک هونا هےـ
جـ مجرم کى تطهیر اور اس کے گناهوں کی بخشش: گناه ایک قسم کى پلیدى اور آلودگى هے اور اس کا مرتکب هونا گناهکار کے آلوده هونے کا سبب بن جاتا هےـ یه آلودگى صرف اس کى تلافى ، تنبیه اور اس کے متناسب سزاسے پاک هوتى هے ـ رویات سے معلوم هوتا هے که اس دنیا میں ایک گناه کى سزا جارى کرنے سے ، گناهکار شخص اس گناه کى آلودگى سے پاک و پاکیزه هوتا هے ـ حق الناس کے علاوه بهت سے گناه حقیقى توبه سے بخش دئے جاتے هیںـ
دـ معاشرے کا تحفظ: معاشره میں ارتکاب جرم هونے پر اگر مجرم کو سزا نه دى جائے تو مجرموں کى همت افزائى اور ان میں جرات پیدا هونے کا سبب بن جاتا هے اور اس کے نتیجه میں معاشره میں جرم و ظلم اور لوگوں کے مال و جان اور ناموس پر ڈاکه ڈالنے کے واقعات پھیلنے اور معاشره میں ناامنى پھیلنے کا سبب بن جاتا هےـ جبکه اسلام کے معین کرده حدود اور سزا کو صحیح معنوں میں اور بر وقت نافذ کرنے سے پاک اور باتقوىٰ انسانوں کى همت افزائى اور انسانى اصول اور قدروں کى رعایت کا سبب بن جاتا هےـ اس کے علاوه حدود اورسزاکا نفاد موقع پرست مجرموں اور بد کاروں کے لئے ایک تنبیه هے تاکه وه اپنى آنکھوں سے دیکھـ لیں وه کس سزاسے دوچار هونے والے هیں اور اس جرم کے مرتکب نه هوجایئںـ اور سر انجام معاشره میں جرم و گناه کى شرح کم هو کر معاشره میں امن و امان کى حالت بڑھـ جاتى هےـ
ھـ : معاشره میں عدل و انصاف کا نفاذ : دوسروں کے حقوق پر ڈاکه ڈالنا اور ان پر ظلم کرنا جرم و گناه کا ارتقاب هےـ عادلانه سزا نافذ کرنے سے معاشر میں عدل و انصاف برقرار هوتا هے، یعنى اگر کوئى ظلم واقع هو تو اس کى تلافى کے لئے اس کے متناسب سزا مقرر کى گئى هےـ پس هر سزا ، کى کچھـ خوبیاں هیں که سنگسار (رجم)اس سے مستثنىٰ نهیں هےـ
شائد سنگسار،(رجم) کو انتهائى (جرائم کو) روکنے والے حکم کا نام دیا جاسکتا هے، یه ایک ایسا حکم هے جو پیغمبر اسلام صلى الله علیه و آله و سلم اور على علیه اسلام کى پورى حکومتوں کے دوران صرف چند افراد کے بارے میں اور وه بھى مجرم کے خود اعتراف جرم کرنے پر جارى هوا هےـ
البته ، اگر بعض مواقع پر حدود کو جارى کرنا اسلام کى بنیاد کو نقصان پهنچنے کا سبب بن جائے تو معصوم امام(ع) اور ولى فقیه کو اختیار هے که وه اسلام کے اهم اتر منافع کے تحفظ کے لئے ، حدود کو عارضى طور پر روک سکتے هیں یا ان حدود کے سلسله میں بعض دوسرى صورتوں کو نافذ کرسکتے هیںـ
حضرت امام خمینى(رح) فرماتے هیں :".....حاکم اس مسجد اور مکان کو منهدم کر کے اس کے پیسے مالک کو دے سکتا هے، جو سڑک کے بیج میں آتے هوں، حاکم ضرورت پڑنے پر مسجد کو بند کرسکتا هے اور حاکم هر عبادى یا غیر عبادى امر جو اسلام کى مصلحت کے خلاف هو، کو تب تک روک سکتا هے ، جب تک یه خلاف مصلحت حالت باقى رهےـ مملکت اسلامى کى مصلحت کے خلاف هونے کے موقع پر ، حج جیسے اهم فرائض الهىٰ کوحکومت تعطیل کرسکتى هےـ"[13]
ایک دوسرى جگه پر فرماتے هیں :".... لوگوں کے لئے اس ساده قضیه کو واضح کرنا چاهئے که اسلام میں نظام کى مصلحت ان مساثل میں سے هے که جو تمام چیزوں پر مقدم هے اور هم سب کو اس کے تابع رهنا چاهئےـ"[14]
اس بنا پر کهنا چاهئے که :"اگرچه احکام الهاى کے نفاذ کے سلسلے میں بعض محافل اور سسیاسى گروهوں اور افراد کى طرف سے کئے جانے والے بے بنیاد اعتراضات کى طرف توجه نهیں کرنى چاهئے ، لیکن اگر کسى موقع پر ایسے حکم کا نفاذ اسلامى نظام کى مصلحت کے خلاف هو تو ولى فقیه کو اختیار هے که وه اس حکم کو کسىدوسرى صورت میں نافذ کرنے کا فرمان صادر کرےـ
[1] کتب عھدعتیق، طبع لندن،ص373،(سفر توریتھ، مشنى، فصل بیست و دوم آیه 22و21).
[2] کتب عھدعتیق، طبع لندن،( سفر توریھ، مشنى فصل بیست و دوم آیه 23).
[3] ترجمھ فارسى المیزان، علامه طباطبائى،ج5، ص543و544.
[4] نقدو تفریعات;ایت الله سید محمد وحیدى(رح)،ص29.
[5] انوارالفقاھھ، ناصرمکارم شیرازى،کتاب حدود،ص281.
[6] جواھرالکلام، نجفى ،ج4،ص318،المقاصد الشرعیھ للعقوبات فى اسلام، دکتر حسنى الجندى،ص637.
[7] تاثر زمان و مکان برقوانین جزائى اسلام،حمید دھقان،ص129.
[8] وسائل الشیعه ، حد عاملى ،ج 18 ،347.
[9] تحریر الوسیلتھ امام خمینى(رح)،ج2،ص461، مسالتھ9.
[10] شرح قانون مجازات اسلامى، سید فتاح مرتضوى، ص32تا43.
[11] وسائل الشیعھ،ج18،ص318و319.
[12] تاثیر زمان و مکان بر قوانین جزائى اسلام،حمید یھقان.
[13] حکومت اسلامى،امام خمینى(رح)،ص233و34.
[14] ایضاًً، ص464.