Please Wait
14414
معجزه کی معنی ایسے خارق العاده ( غیر معمولی) کام کے هیں جو ایک چیلنج کے ساﭡﮭ تو دوسری طرف صاحب معجزه کے دعوے کے مطابق هوتا هے ، خارق العاده یعنی فطری اور عام قانون کے بر خلاف کوئی کام انجام پائے ۔
معجزه کے خارق العاده هونے کے معنی یه نهیں هیں که قانون علیت کی نفی هورهی هے یا کوئی علت نهیں هے جبکه معجزه میں بھی فطری اور عام اسباب پائے جاتے هیں لیکن هر انسان ان اسباب کو درک هیں کر پاتا اور نه هی اس سے واقف هوتا هے ، تحدی (چیلنج) یعنی صاحب معجزه نبی (علیهم السلام) ان افراد سے جو اس کے معجزه پر یقین نهیں رکھتے اوراس کی دعوت پر لبیک نهیں کهتے اس کے نظیر غیر معمولی کام کو طلب کرے ۔
معجزه خداوند عالم کے اذن کے ساﭡﮭ انبیاء (علیهم السلام) کے اراده سے رونما هوتا هے یعنی خداوند عالم کی لامحدود اور لافانی طاقت پر استوار هوتا هے ، اسی لیئے همیشه غالب اور کامیاب رهتا هے ۔ معجزه کے لیئے سیکھنے سکھانے کی ضرورت نهیں هے ، یهی وجه هے که اس کے لیئے کسی خاص قید و شرط کی بھی ضرورت نهیں هے ۔
انبیاء (علیهم السلام) کا معجزه صرف تماشا اور سرگرم کرنے کی خاطر نهیں هوتا بلکه لوگوں کی هدایت کی خاطر رونما هوتا هے اسی وجه سے معجزه ، کرامت ، جیسے دعا کے مستجاب هونے اور جادو وغیره سے الگ هے ۔
کرامات میں چیلنج ، لوگوں کی هدایت اور پیغمبروں کا دعویٰ موجود نهیں رهتا ،سحر اور جادو وغیره جیسے امور میں جنھیں جوگی یا سادھو لوگ انجام دیتے هیں فطری و عادی منبع نهیں هوتا بالفرض اگر هو بھی تو مقصد نیک نهیں هوتا ، اس کے علاوه وه انسان اسے سیکھتا هے اور مشق کے ذریعه حاصل کرتا هے اور چونکه اس کا سرچشمه انسانی طاقت هے جو محدود هے لهذا اس طرح کے افراد سے انجام پانے والا خارق العاده کام اپنے سے بڑی طاقت کے آگے مغلوب هو جاتا پے ۔
معجزه کا ثابت کرنا:
معجزه کی دوقسمیں هیں : فعلی یا قولی ۔
فعلی معجزه ، ایک طرح سے لوگوں کے حواس سے مربوط هوتا هے جو ایک مخصوص وقت میں رونما هوکر بعد میں ختم هوجاتا هے ، البته پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے بعض فعلی معجزے اب تک باقی هیں ۔
جو لوگ اس قسم کا معجزه رونما هوتے وقت موجود هیں تھے ان کے لیئے معجزات کو بیان کرنےوالی روایتوں کے ذریعه ثابت کرنا ممکن هے ۔
پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کا قولی معجزه یهی قرآن هے ۔ قرآن نے بهت سے مقامات پر منکروں کو مقابله کی دعوت دی هے اور چیلنج کیا هے ۔ قرآن کا چیلنج کسی خاص امر جیسے فصاحت و بلاغت کے سلسله میں نهیں هے ۔
بلکه هر طرح کی ممکن برتری میں اس کا چیلنج هے جیسے غیب کے بارے میں خبر، علمی مسائل یا قرآن مجید میں اختلاف نه هونا و غیره ۔ اور اس طرح کے معجزه کےثابت کرنے کے لیئے اعجاز قرآن کی قسمتوں میں تحقیق کی ضرورت هے یعنی یه ثابت هو که قرآن مجید مختلف میدانوں میں اس قدر برتری رکھتا هے که انسان ان کا مثل لانے سے عاجز هے ۔
علمائے اسلام نے معجزه کی تعریف اس طرح کی هے :[1]
معجزه وه خارق العادت امر هے جو چیلنج کے ساﭡﮭ ساﭡﮭ دعوے کے مطابق هوتا هے ؛ خارق العادۃ وه واقعات هیں جو فطرت و عادت اور وضع شده طبیعی قانون کے بر خلاف واقع هوتے هیں ۔
معجزه کے خارق العادت هونے کے یه معنی هیں که معجزه قانون علیت سے الگ اور مستثنیٰ هے۔ معجزه ، اسباب کی نفی کرنا نهیں هے اس لیئے که قانون علیت کو عقل اور قرآن دونوں نے قبول کیا هے،علیت کا قانون[2]
اور خارق العادت دونوں کو قرآن نے قبول کیا هے ، لیکن قرآن بعض معارف بھی لوگوں کو سکھاتا هےجیسے تمام اسباب کی باگ ڈورخدا کے هاﭡﮭ میں هے ، مادی اسباب اثر انداز هونے میں مستقل نهیں هیں بلکه اصل سبب خدا هے ۔[3]
معجزه کے سلسله میں موثر اسباب میں سے انبیاء (علیهم السلام) کے پاک و پاکیزه نفس هیں [4] ۔ اور وه سرچشمه هے جو انبیاء (علیهم السلام) ، اولیاء اور مومنین کے نفسوں اور ارادوں میں موجود هے جو هر طرح کے ظاهری اسباب سے مافوق اور ان پر غالب هے [5] ۔
نتیجه یه که معجزه و دیگر تمام خارق العاده امور دوسرے عادی امور کی طرح فطری اور طبیعی اسباب کے محتاج هیں اس کے علاوه یه دونوں باطنی اور معنوی اسباب سے بھی سرافراز هیں یه باطنی اسباب ان اسباب سے جنھیں هم اسباب کے عنوان سے پهچانتے هیں فرق رکھتے هیں لیکن مادی و ظاهری اسباب ، انھیں معنوی اسباب پر استوار هیں اور معنوی اسباب خداوند عالم کے حکم و اراده پر قائم هیں ۔ البته کبھی کبھی ظاهری اسباب واقعی اسباب سے هم آهنگ نهیں هوتے اور نتیجه میں یه ظاهری سبب اپنی سببیت کھو دیتا هے اور وه عادی کام وجود میں نهیں آتا اس لیئے که خداوند عالم کا حکم و اراده نهیں تھا ۔ اس کے بر خلاف خارق العاده امور عادی اور طبیعی اسباب پر منحصر نهیں هوتے بلکه غیر عادی طبیعی اسباب پر استوار هوتے هیں یعنی وه اسباب جنھیں عوام الناس درک نهیں کر سکتے البته وه غیر عادی طبیعی اسباب بھی حقیقی اور معنوی اسباب کے ساﭡﮭ ساﭡﮭ خداوند عالم کے امرو اراده کے همراه هوتے هیں ۔
معجزه کی دوسری شرط تحدی (چیلنج) کے همراه هونا هے ، یعنی جس نبی (علیهم السلام) کے ذریعه معجزه واقع هوتا هے وه لوگوں سے خاص کر منکرین اور یقین نه کرنے والوں سے یه کهتا هے که اگر یه همارا معجزه تمھیں ایک عادی و معمولی امر نظر آرهاهے اور اسے هماری دعوت کی سچائی کا ثبوت نهیں سمجھتے تو اس جیسا تم بھی کوئی معجزه لے کر آؤ[6] ۔ دوسرے لفظوں میں معجزه (( الله کی دلیل اور نشانی )) جو ایک الهی ماموریت کو ثابت کرنے کے لیئے انجام پاتا هے اسی وجه سے مخصوص شرائط اور تحدی (چیلنج) کے ساﭡﮭ هوتا هے [7] ۔
معجزه کی تعریف میں بیان هونے والی ایک اور شرط یه هے که معجزه دعوے کے مطابق هونا چاهیئے یعنی اگر کوئی نوبت کا دعوا کرے اور مثلاً اندھے کو شفا دینا اپنا معجزه قرار دے تو ایسے میں اندھے کو شفا ملنی چاهیئے تا که یه اس کے سچے هونے کی دلیل بن جائے [8] ۔
تو معلوم هواکه معجزه ، خارق العاده هے اور خارق العاده امر هر چند دعا کے مستجاب هونے ، سحر ، جادو، کهانت ، ریاضت و غیره کو شامل هے لیکن اس میں جادو اور ریاضت میں معجزه کے مقابله کی تاب نهیں هے اور اس کے اسباب شکست کھاجاتے هیں ۔ اور معجزه اس لحاظ سے معجزه هے که اس کے طبیعی اور غیر معمولی اسباب کبھی بھی شکست کھاتے اور همیشه غالب آتے هیں [9] ۔ سحر وجادو کا منبع و سرچشمه نه طبیعی هوتا هے اور نه هی الٰهی هوتا هے اور اکثرو بیشتر نظر بندی جیسے آنکھوں کی تیزی پر سبقت ، خیالات ، ابهامات وغیره پر مبنی هوتا هے اور اگر کهیں طبیعی منشأ هوتا بھی هے تو برے مقصد کی خطر هوتا هے جو خرافات اور جهالت پر قائم رهتا هے ۔
یعنی انسانیت کا خرق العاده کام هدف اور مقصد کے لحظ سے بھی انبیاء کے معجزوں سے فرق کرتا هے جبکه انبیاء لوگوں کی هدایت اور رهنمائی کے لیئے معجزه دکھاتے هیں نه که تماشا و سرگرمی کی خاطر ۔
دوسرے یه که معجزه میں کوئی خاص شرط یا قید و بند نهیں هے یعنی معجزه انجام دینے کے لیئے سیکھنے یا مشق کی ضرورت نهیں هے ۔ بالکل اس کام کے بر خلاف جسے جوگی ، سادھو لوگ انجام دیتے هیں اور اس کی وجه یه هے که انبیاء کا معجزه لامحدود و لافانی الٰهی طاقت پر استوار هوتا هے ، لیکن دوسروں کے خارق العاده امور انسان کی محدود طاقت سے انجام پذیر هوتے هیں ۔ اسی لیئے انسان کے خارق العاده امور کا مقابله کیا جاسکتا هے اور کوئی اس کے ساﭡﮭ چیلنج کی جرأت نهیں کرتا [10] ۔
معجزه اور دعاکے مستجاب هونے میں یه فرق هے که معجزه میں تحدی (چیلنج) اور لوگوں کی هدایت کارفرما هوتی هے اور اس کے ذریعه نبی کی نبوت و رسالت ثابت هوتی هے ۔ اسی لیئے صاحب معجزه کو اختیار هوتا هے که جب بھی لوگ اس سے معجزه طلب کریں وه معجزه دکھائے اور خداوند عالم اس کے اراده کو عملی جامه پهناتا هے لیکن اولیائے کرام کے کرامات اور دعا کا مستجاب هونا اس کے برخلاف هے اس میں تحدی(چیلنج) اور کسی کی هدایت سے سروکار نهیں هوتا اس کے برعکس هونے کا امکان هے اور ان کا برعکس هونا لوگوں کی گمراهی کا سبب بھی نهیں بنتا [11]۔
دوسرے لفظوں میں کرامت ایک ایسا خارق العاده امر هے جو صرف ایک کامل یا نیمه کامل انسان کی روح اور نفس کے پاک هونے کے سبب اثر پذیر هوتا هے ؛ یه کسی خاص الهی مقصد کو ثابت کرنے کے لیئے نهیں هوتا ۔ حقیقت میں معجزه خداکی وه زبان هے جو کسی شخص (نبی (علیهم السلام) ) کی تأثیر کرتی هے لیکن کرامت اس طرح کی چیز نهیں هے [12] ۔
بهر حال معجزه دعوے کے همراه نبی سے مخصوص هے اور اگر کسی شخص سے معجزه سرزد هوتو یا وه نبوت کا دعوے دار هوگا یا نهیں هوگا ، اگر هے تو معجزه کے ذریعه اس کے دعوے کی سچائی کا علم هوجائے گا اس لیئے که جھوٹے کے ذریعه معجزه کا ظاهر هونا قباحت رکھتا هے اور اگر نبوت کا دعویدار نهیں هے تو اس پر نبی هونے کا حکم نهیں لگایا جائے گا ۔ اس لیئے که خود معجزه نبوت پر دلالت نهیں کرتا ،بلکے دعوے که سچائی کو ثابت کرتا هے اور اگر اس کا دعوا دعوائے نبوت کا حامل هو تو معجزه اس بات پر دلالت کرتا هے که دعوا کرنے والا اپنے دعوے میں سچّا هے جس کا لازمه اس کی نبوت کا ثابت هونا هے ۔
البته نبی نبوت سے پهلے بھی معجزه دکھا سکتا هے لیکن یه ((ارهاص)) یعنی لوگوں کو دعوت قبول کرنے کے لیئے آماده کرنے کی خاطر هوتا هے [13] ۔
هوں نبی (علیهم السلام) کی دعوت کے آغاز کے بعد یه معجزه چیلنج کے ساﭡﮭ هوتا ورنه اگر کوئی خارق العادۃ یوں هی نبی (علیهم السلام) سے سرزد هو تو وه کرامت شمار هوتا هے هر چند عرف میں انبیاء اور ائمه (علیهم السلام) کی ساری کرامت کو معجزه کها جاتا هے [14]۔
لیکن معجزه کو ثابت کرنا دومطالب کی وضاحت پر موقوف هے ایک نبی (علیهم السلام) کے معجزه کی قسمیں دوسرے :قرآن کے معجزه هونے کے جهات
معجزه کے اقسام:
معجزه کی دو قسمیں هیں : فعلی اور قولی
معجزه فعلی سے مراد ، ولایت تکوینی کی بنیاد پر خدا کے اذن سے کائنات پر تصرف [15] ۔ جیسے پیغمبر اسلام (صل الله علیه و آله وسلم) کے هاتھوں چاند کا دو ٹکڑے هونا[16] ، درخت کا دو حصوں میں تقسیم هونا [17] اور قارون و فرعون کے قصه میں جناب موسیٰ (علیه اسلام) کے ذریعه زمین کا شق هونا [18] ، سمندر میں راسته بننا[19] اور جناب صالح کے ذریعه پهاڑ کا شگافته هونا [20] اور جناب عیسیٰ (علیه اسلام) کے ذریعه مردوں کا زنده هونا اور کوڑھیوں کا شفا پانا [21] نیز اعجاز علوی کے ذریعه خیبر کا در اکھڑنا [22] ۔
قولی معجزه سے مراد الله ، رسول خدا (صل الله علیه وآله وسلم) اور ائمه (علیهم السلام) کے حقانیت اور معارف سے بھرے وه اقوال هیں جو دنیا والوں کی عقلوں کے حیرت کا سبب هیں ۔ فعلی اور قولی معجزه کا فرق یه هے که فعلی معجزه خاص زمان و مکان سے محدود بھی هوتا هے اور عوام کے لیئے بھی هوتا هے اس لیئے که عوام محسوسات سے سروکار رکھتے هیں[23] ۔ لیکن قولی معجزه کسی خاص زمانه سے مخصوص نهیں هوتا ، هر زمانه میں باقی رهتا هے جو خاص لوگوں سے مخصوص بھی هوتا هے ۔
البته رسول خدا (صل الله علیه وآله وسلم) کے فعلی معجزوں میں سے مدینه کے قبله کا تعمیر هے جو اب تک اپنی جگه باقی هے اور پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کسی نجومی آلات یا علم هیئت کے قاعدے کی مدد کے بغیر کعبه کی طرف رخ کرکے کھڑے هوگئے اور فرمایا : (( محرابی علی المیزاب)) میری محراب خانه کعبه کے میزاب کی جانب هے [24] ۔
فعلی معجزه ثابت کرنے کے لیئے اس روایات کی تحقیق کی ضرورت هے جو معجزه کو بیان کرتی هیں اگر وه روایتیں سند کے اعتبار سے قبول هیں یا ان کے صحت کے قرینے موجود هیں تو هم ان معجزوں کو قبول کریں گے ورنه اس کے ثابت کرنے کا کوئی اور راسته نهیں هے ۔ هر چند اس کے امکان سے انکار بھی نهیں کرسکتے ، هاں، وه فعلی معجزے جنھیں قرآن کریم نے انبیاء کے سلسله میں نقل کیا هے انھیں هم بغیر کسی شک و شبهه سے قبول کرتے هیں اور اسی طرح اب تک باقی رهنے والے فعلی معجزے بھی قابل قبول هیں ۔
قرآن کا معجزه هونا :
قولی معجزه کا سرچشمه قرآن مجید هے جس کے صادر هونے اور عدم تحریف سے کوئی انکار نهیں کرسکتا ، جو چیز باقی ره جاتی هے وه یه که قرآن کے معجزه هونے کی دلیل کیا هے؟
اس سوال کے جواب کے لیئے اعجاز قرآن کی جهات کا واضح هونا ضروری هے یعنی قرآن مجید کی مختلف جهتوں سے تحقیق کی جائے تا که یه ثابت کیا جا سکے که قرآن مجید الله کا کلام هے ۔
وجوه اعجاز قرآن مجید: [25]
قرآم مجید نے مختلف لحاظ( جهت) سے چیلنج کیا هے جس میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشاره کیا جا رها هے :
1- فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے تحدی( چیلنج) [26]
2- قرآن میں بیا ن شده معارف میں اختلاف نه هونے کے اعتبار سے چیلنج [27]
جیسا که امیر المؤمنین (علیه السلام ) فرماتے هیں(( قرآن کا بعض حصه دوسرے حصه کی تفسیرکرتا هے اور ایک ٹکڑا دوسرے ڈکڑے پر گواه هے ))
3- غیب کی خبروں کے بارے میں چیلنج[28]
4- جس پر قرآن نازل هوا هے اس کے بارے میں چیلنج [29]
5- علم و معرفت و غیره کے اعتبار سے چیلنج [30]
قرآن مجید اپنی حقانیت اور اعجاز کو اس طرح ثابت کرتا هے که جو شخص امیّ هے ، کهیں پڑھا نهیں هے اور ایسے ماحول میں که جهاں اخلاق ، معارف اور دینی قرانین (چاهے عبادی هوٰ یا معاملاتی ، سیاسی یا اجتماعی ، مختصر یه که هر وه چیز جس کی انسانیت نیازمند تھی) کو لوگوں کے لیئے پیش نهیں کرسکتا وه بھی اس طرح که صاحبان علم و فکر کو تعجب میں ڈال دے اور وه ان کا جواب دینے سے عاجز هوجایئں ۔ قرآں مجید نے صرف عمومی اور اهم مسائل کو بیان نهیں کیا هے بلکه چھوٹے سے چھوٹے جزئی مسائل کو بھی نهیں چھوڑا هے اور تعجب تو یه هے که سارے معارف انسانی فطرت اور اصل توحیدکی بنیاد پر بیان کیئے هیں اس طرح کی اس کے احکام کی تفصیل ،تجزیه و تحلیل کے بعد توحید کی طرف پلٹتی هے اور اصل توحید بھی تجزیه و تحلیل کے بعد انھیں تفصیلوں کی جانب پلٹتی هے ۔ قرآن مجید کے الفاظ اور ان میں پوشیده معانی دونوں هی معجزه هیں یعنی اچھے الفاظ میں بات کهی گئی هے اور اچھی بات بھی کهی گئی هے [31] ۔ اور اب تک کسی بھی انسان میں یه جرأت نه هوئی که قرآن مجید کے چیلنج کے مقابل کسی بھی اعتبار سے کھڑا هو اور کم از کم ایک چھوٹے سے سوره ((کوثر)) کا جواب لے آئے ۔
آخر میں جس نکته کی طرف توجه دلانا ضروری هے وه یه که قرآن مجید نے اپنے ایک ایک کلمه کا چیلنج کیا هے[32] اور ارشاد هوتا هے که اگر کوئی اس کے مانندلا سکتا هے تو لائیے ؛ یه نهیں فرماتا که : اگر قرآن جیسی فصیح و بلیغ کتاب یا ایسی کتاب جس میں ایسے معارف هوں لا سکتا هو تو لائیے ؛ اس سے یه ﺴﻤﺠﻬ میں آتا هے که قرآن مجید هر ممکن جهت سے بالا و برتر هے یه تحدی (چیلنج) هر زمانه کے هر فرد کے لیئے هے اور اگر کسی میں اعجاز قرآن کے جهات کو سمجھنے کی سکت نهیں هے تو اسے چاهیئے که وه ان صاحبان علم و فهم کی طرف رجوع کریں جنھوں نے قرآنی معارف کو سمجھنے کے لیئے پوری کوشش کی پھراس نتیجه پر پهنچے، که قرآن معارف کا وه دریا هے جس کا ایک صرف قطره انھیں حاصل هواهے ۔ حح
[1] ملاحظه هو: کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد ، علامه حلی با تعلیق آیت الله حسن زاده آملی صص350-353 ؛ تعلیقات حسن زاده، بر کشف المراد ص595. رهبران بزرگ و مسؤولیتهای بزرگتر صص119-153 ؛ مقدمه ای بر جهان بینی اسلام ، شهید مطهری طبع جامعه مدرسین سال 1362 صص179-208 ؛ المیزان ، ج 1 ، صص 58-90 ؛ترجمه فارسی المیزان ، ج 1 ، صص93-140 ؛ انسان کامل از دیدگاه نهج البلاغۃ صص8-21 ؛ ترجمه و شرح اشارات ابن سیان ، نگارش دکتر ملک شاهی ،صص466-491 ؛ شواهد الربوبیۃ ، ملاصدرا ، حواشی سبزواری و تعلیق ، تصحیح و مقدمه ، سید جلال آشتیانی طبع دوم صص349۔340 ؛ فصل فی الاصول المعجزات و خوارق العادات ، مبدأ و معاد ، ملاصدرا ، ترجمه احمد بن محد الحسینی اردکانی به کو شش عبد الله نورانی ، صص549-538 ۔
[2] سوره طلاق /3 ، سوره حجر/21 ، سوره قمر/49
[3] سوره اعراف /54 ، سوره بقره /284 ، حدید /5 ، نساء/80 ، آل عمران /26 ، طه /50 ،بقره /255 ، یونس/3
[4] سوره مؤمن /78
[5] سوره صافات/173 ،مجادله /21 ، مؤمن /53
[6] ملاحظه هو : بهاء الدین خرمشاهی ، جهان غیب و غیب جهان ، صص45-83
[7] ملاحظه هو : شهید مطهری ، مقدمه ای بر جهان بینی اسلامی ، طبع جامعه مدرس، ص189
[8] کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص350
[9] فرعون کے جادوگروں کی داستان میں هے که جب انھوں نے حضرت موسی (علیه السلام) کا عمل دیکھا تو وه خود هی یه ﺴﻤﺠﻬ گئے که یه کام معجزه هے اس لیئے که ان کی رسیاں نگل لی گئی تھی لهزا انھوں نے اپنے عاجز هونے کا اظهار کیا و غیره ۔ ۔ ۔ ، سوره اعراف /105-125
[10] ملاحظه هو : آیت الله مکارم شیرازی ، رهبران بزرگ و مسؤولیتهای بزرگتر ،صص119-153
[11] المیزان ، ج 1 ، ص82
[12] شهید مطهری مقدمه ای بر جهان بینی ، 1-7 ،ص 189 ؛ شهید مطهری ، آشنائی ب قرآن ج 2 ، ص235 به بعد
[13] کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص352
[14] کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص353 ؛ جهان غیب و غیب جهان ، صص46-47
[15] انسان الله کے احکام کے تعمیل کے ذریعه خدا سے نزدیک هوتا هے جس کے نتیجه میں وه مقام ولایت سے سرفراز هوتا هے ، اور اس کے بعد وه خد اهی کی طرح کائنات میں تصرف کر سکتا هے
[16] پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے معجزوں میں سے آپکا چاند کو دو ٹکڑے کرنا هے
[17] حضرت علی (علیه اسلام) نے نهج البلاغه کے قاصعه میں پیغمبر کے معجزه شق البحر کی توضیح فرمائی هے ؛ پیغمبر اکرم کے معجزات کے بارے میں بحار الانوار طبع کمپانی سنگی ، ص 105 کی طرف رجوع کریں ۔
[18] سوره قصص/76-81
[19] سوره بقره /50
[20] سوره شمس /11-15
[21] آل عمران /49
[22] بشارۃ المصطفیٰ ، طبع نجف اشرف، ص235 ؛ امالی صدوق، مجلس، 77 طبع سنگی ،ص307
[23] اس کے معنی یه نهیں هے که خواص اس سے استفاده نهیں کریں گے بلکه کبھی حضرت موسی (علیه السلام) کے قصه میں ذکر شده جادوگراس سے استفاده کرنے والوں کی سر فهرست میں قرار پاتے هیں ۔
[24] میر داماد، قبسات، طبع سنگی ،ص321 ؛کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تعلیقات حسن زاده ،صص597-598 ؛انسان از دیدگاه نهج البلاغه ، آیت الله حن زاده آملی ،صص8-21
[25] ملاحظه هو: دائرۃ المعارف تشیع، ج 2 ،ص295 ؛دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ، ج 9 ،صص393-366 ؛ المیزان،ج1،صص58-90 تعلیقات آیت الله حسن زاده آملی بر کشف المراد،صص597-600 ۔
[26] سوره هود /14 ،سوره یونس/39
[27] سوره نساء /82 ، زمر/23
[28] سوره هود/49- سوره یوسف/102- آل عمران/44- مریم /34- روم /1- 4 ، فتح /15- انبیاء/97 ، قصص/85 – مائده /67- نور/55–فتح /27 - حجر/329- انعام /65- یونس/47
[29] سوری یونس/16
[30] سوره نحل /89- انعام /59- نساء/106- فصلت /42- حشر /7- حجر /9-
[31] ملاحظه هو: عنوان وجوه اعجاز قرآن
[32] سوره بقره /23 – اسراء /88