Please Wait
12012
خداوند متعال ایک لامتناهی وجود هے اور اس میں تمام کمالات پائے جاتے هیں اور فیض و کرم کو پیدا کرنے والا هے اور خداوند متعال فیاض هے- اس کے کمال فیاضیت کا تقاضا هے که جو بھی چیز پیدا هونے کی لیاقت رکھتی هو، اسے پیدا کرتا هے- پس خداوند متعال نے پیدا کیا ، کیونکه وه فیاض هے، یعنی پیدا کرنے کا مقصد اسکی فیاضی میں مضمر هے- چونکه خداوند متعال کی ذاتی صفات اس کی ذات سے خارج نهیں هیں، اس لئے کها جا سکتا هے که پیدائش کا مقصد، خداوند متعال کی ذات هے-
پروردگارعالم نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا هے جس میں دو اندرونی رحجانات یعنی خوبی اور بدی موجود هیں اور اس کے علاوه اس کے لئے دو خارجی دعوت کرنے والے یعنی خوبی{انبیاء} اور بدی{شیاطین} مقرر کئے هیں تاکه انسان خلقت کے کمال تک پهنچے اور زوال کی پستی سے دوچار هونے کی قابلیت رکھتا هو- اگر انسان حیوانی رجحانات اور شیطانی وسوسوں کے باوجود راه حق کو طے کرے، تو وه ملائکه سے افضل هوگا، کیونکه ملائکه میں حیوانی رجحانات اور شیطانی وسوسوں کا فقدان هے اور اگر یه انسان باطل کی راه کا انتخاب کرے تو حیوان سے پست تر هوگا، کیونکه حیوانوں میں انسان کی جیسی معنوی قابلیتیں نهیں پائی جاتی هیں-
اگر پروردگارعالم پهلے هی سے انسان کو اس کے لئے هر ممکن کمالات کے ساتھه پیدا کرتا تو، یه اس کے لئے اختیاری کمال شمار نهیں هوتا اور خداوند متعال نے اس سے پهلے ضروری کمالات کے ساتھه مخلوقات کو پیدا کیا تھا- لهذا انسان کی خلقت کا مقصد اس وقت متحقق هوتا هے جب وه کمال کی قابلیت رکھتا هو اور اپنے اختیاری عمل سے اس کمال تک پهنچ سکے- کافر اور گناهگار جو اس کمال سے محروم ره جاتے هیں، اگرچه انسان کی پیدائش کے اصلی مقصد خداوند متعال کی تشریعی چاهت---- کو پورا نهیں کر سکے هیں، لیکن انسان کے تکوینی مقصد کی مخالفت بھی نهیں کی هے، کیونکه خداوند متعال {تکوینی چاهت کے مطابق} چاهتا تھا که انسان راه حق یا باطل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے- اگر خداوند متعال، انسان کے لئے گمراهی کی راه کو منتخب کرنا نا ممکن بنا دیتا، تو اس کا ایمان اور اس کی اطاعت دونوں اختیار و اراده پر مبنی نهیں هوتے-
جواب کو واضح کرنے کے لئے درج ذیل چند مقدمات کو بیان کرنے کی ضرورت هے:
الف- پیدائش کے بارے میں خداوند متعال کا مقصد:
۱۔ چونکه خداوند متعال واجب الوجود هے اور اس کا وجود کسی چیز سے وابسطه نهیں هے اس لئے اس میں کسی قسم کی محدودیت اور نقص نهیں هے بلکه اس میں تمام کمالات پائے جاتے هیں-
۲۔ خداوند متعال کے کمالات میں سے اس کا فیاض اور جواد {سخی} هونا شامل هے- خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے: "آپ کے پروردگار کی عطا کسی پر بند نهیں هے[1]-" چونکه خداوند متعال اپنی طرف سے کسی چیز کو عطا کرنے میں کوئی محدودیت نهیں رکھتا هے، لهذا اگر کهیں پر عطا نهیں کرتا هے تو عطا کو قبول کرنے والے کی محدودیت کی وجه سے هے، نه که عطا کرنے والے کی وجه سے اور جو بھی چیز عطا هونے کی قابلیت رکھتی هو، وه ضرور عطا هوتی هے-
۳۔ هر خیروکمال وجود پر مبنی هے اور هر شر و نقص عدم پر مبنی هے- مثال کے طور پر علم، خیر و کمال هے اور جهالت، شر و نقص هے- اسی طرح عجز و ناتوانی کے مقابلے میں طاقت، کمال و خیر هے- پس معلوم هوا که وجود خیر هے اور اس کے مقابلے میں هر قسم کا شر و نقص عدم هے-
۴۔ تیسرے مقدمه کے پیش نظر معلوم هوتا هے که خداوند متعال کا فیاض اور جواد{سخی} هونا پیدا کرنے سے متحقق هوتا هے- پس فیاض هونے کا لازمه پیدا کرنا هے-
به الفاظ دیگر، اگر کوئی چیز پیدا کی جانے کی لیاقت رکھتی هو اور خداوند متعال اسے پیدا نه کرے، تو وجود کے خیر هونے کے پیش نظر، یه پیدا نه کرنا خیر میں رکاوٹ هے اور بخل شمار هوتا هے اور خداوند متعال کے لئے بخل نا ممکن هے- ان مقدمات سے همیں یه نتیجه حاصل هوتا هے، اگر سوال کیا جائے که خدا کو مخلوق کی پیدائش کے لئے کون سی چیز سبب بنی هے؟ تو هم جواب دیتے هیں اس کا فیاض هونا پیدائش اور تخلیق کا سبب بنا هے-
۵۔ خداوند متعال کی صفات اس کی ذات کے علاوه کوئی چیز نهیں هے- انسان اور دوسری چیزوں کی صفات ان کی ذات کے علاوه هوتی هیں- مثال کے طور پر سیب کی ایک ذات هے اور سرخی اور مٹھاس اس کی صفتیں هیں- سیب کی یه سرخی اور مٹھاس اس کی ذات کے علاوه هے- سیب ان صفات کے بجائے کھٹا اور سبز بھی هو سکتا هے اور اس کی ذات باقی ره سکتی هے-
خداوند متعال کی ذات اور صفات میں اتحاد کی بحث ایک عمیق کلامی بحث هے، جس کو آپ علم کلام میں توحید صفاتی کی بحث میں مطالعه کر سکتے هیں- یهاں پر جو چیز همارے لئے زیاده اهمیت کی هے، وه هے خداوند متعال کا فیاض هونا---- جو خلقت کے مقصد کی علت هے---- خداوند متعال کی عین ذات هے اور اس کی ذات سے خارج کوئی چیز نهیں هے- پس اگر سوال کیا جائے که پروردگار عالم نے کیوں پیدا کیا؟ تو هم جواب میں کهیں گے: کیونکه وه خدا هے- پس مقصد کی علت درحقیقت خود خداوند متعال هے- یه همارے فلسفیوں کی بات هے، جو کهتے هیں: خداوند متعال میں مقصد کی علت اور افعال کی علت متحد هے[2]، اور شاید قرآن مجید کی بعض آیات سے یهی معنی نکالے جا سکتے هیں[3] اور "الیھ یرجع الامر کلهھ" تمام کام اس کی طرف پلٹا دئے جاتے هیں[4]-" سے استفاده کیا جا سکتا هے-
ب- انسان کو پیدا کرنے میں خدا کا مقصد:
جو کچھه بیان هوا، وه اصل تخلیق میں فاعل کا مقصد تھا، لیکن ایک خاص مخلوق جیسے انسان کو پیدا کرنے میں فاعل کے مقصد کے لئے ایک خاص نکته کی ضرورت هے- انسان کے بارے میں یه نکته، وه خاص کمال هے جسے خداوند متعال انسان کو پیدا کر کے خلق کرنا چاهتا هے-
وضاحت: خداوند متعال کے کمال فیاض هونے کا لازمه یه هے که هر ممکنه کمال کو پیدا کرے- اس نے انسان کو پیدا کرنے سے پهلے، ملائکه نام کی ایک مخلوق کو پیدا کیا تھا اور ملائکه پیدائش کی ابتداء سے هی تمام ممکنه کمالات کے حامل تھے- یعنی وه اپنے تمام کمالات کے بالفعل حامل تھے- لهذا انهیں هرگز کوئی نیا کمال حاصل نهیں هوتا هے اور ان کا وجود تکامل کے مراحل طے نهیں کرتا هے- خداوند متعال نے به زبان ملائکه ارشاد فرمایا هے: "اور هم میں سے هر ایک کے لئے ایک مقام معین هے اور هم اس کی بارگاه میں صف بسته کھڑے هونے والے هیں اور هم اس کی تسبیح کرنے والے هیں[5]-"
حضرت علی علیه السلام نے فرمایا هے: " اس کے بعد بلند آسمانوں کو پھیلا دیا اور ان کو فرشتوں سے بھر دیا- فرشتوں کی ایک جماعت همیشه سجده کی حالت میں هے اور رکوع میں نهیں اور ایک جماعت رکوع کی حالت میں هے اور قیام میں نهیں اور ان میں سے ایک جماعت صف میں کھڑی هے اور متفرق نهیں هوتی اور ایک جماعت مسلسل تسبیح پڑھتی هے اور نهیں تھکتی[6]-" وه {فرشتے} خداوندمتعال کی عبادت کرتے هیں، اور یه ایک کمال هے جو خداوند متعال نے انهیں عطا کیا هے اور ان کے لئے نافرمانی اور مخالفت کرنا ممکن نهیں هے- ارشاد الهی هوتا هے: " لا یسبقون بالقول وھم بامره یعلمون[7]" " وه {فرشتے} کسی بات میں اس پر سبقت نهیں کرتے هیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے رهتے هیں-" مزید ارشاد فرمایا: " {آگ پر} ملائکه معین هوں گے جو سخت مزاج اور تند و تیز هیں اور خدا کے حکم کی مخالفت نهیں کرتے هیں اور جو حکم دیا جاتا هے اس پر عمل کرتے هیں[8]-"
خداوند متعال، فیاض هونے کے پیش نظر ملائکه کو دئے گئے کمال کے علاوه انسان کے لئے ایک برتر کمال کا اضافه کرنا چاهتا تھا اور وه انسان کے اختیار کا کمال هے، یعنی ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاهتا تھا جو اپنے اراده و اختیار سے ان سب کمالات کو حاصل کر سکے- اس طرح الله نے انسان کو پیدا کیا ، جو پهلے سے اپنے لائق کمالات کا حامل نهیں هے، لیکن ایسا هے که ان کمالات تک پهنچ سکتا هے- واضح رهے که جن کمالات کو انسان اپنے اراده و اختیار سے حاصل کرے، وه ملائکه کو عطا کئے گئے کمالات سے برتر هیں- امیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب علیه السلام نے فرمایا هے: " خداوند متعال نے ملائکه کو صاحب عقل پیدا کیا اور ان کو شهوت نهیں دی اور حیوانات کو شهوت کے ساتھه پیدا کیا اور انهیں عقل عطا نهیں کی اور بنی آدم کو عقل و شهوت کے ساتھه پیدا کیا- پس جس کی عقل شهوت پر غلبه پائے وه ملائکه سے برتر هوگا اور جس کی شهوت عقل پر غلبه پائے وه حیوانات سے بدتر هوگا[9]-" مولانا رومی نے بھی اس مطلب کو نظم کی صورت میں یوں پیش کیا هے:
در حدیث آمد که خلاق مجید خلق عالم را سه گونه آفرید
حدیث میں آیا هے که خالق کائنات نے مخلوقات کو تین صورتوں میں پیدا کیا هے-
یک گروه را جمله عقل و علم و جود آن فرشته است و نداند جز سجود
ایک جماعت کو عقل و علم کے ساتھه پیدا کیا هے اور وه فرشتے هیں جو سجده کے علاوه کچھه نهیں جانتے،
نیست اندر عنصرش حرص و هوى نور مطلق زنده از عشق خدا
ان کے اندر حرص اور نفسانی خواهشات نهیں هیں، وه مطلق نور هیں اور خدا کے عشق پر زنده هیں-
یک گروه دیگر از دانش تهى همچو حیوان از علف در فربهى
ایک اور جماعت عقل و علم سے محروم هے، جو حیوانات کے مانند گھاس کھا کر موٹی هوتی هے،
او نبیند جز که اصطبل و علف از شقاوت غافل است و از شرف
یه لوگ اصطبل اور گھاس پھوس کے علاوه کچھه نهیں جانتے اور شقاوت و شرف سے غافل هیں-
و آن سوم هست آدمیزاد و بشر از فرشته نیمى و نیمش ز خر
تیسری قسم کی مخلوق انسان اور بشر هیں، ان میں نصف فرشتوں اور نصف حیوانات کی خصوصیات پائی جاتی هیں-
نیم خر خود مایل سفلى بود نیم دیگر مایل علوى شود
ان کی حیوانی خصوصیات انهیں پستی اور زوال سے دوچار کرتی هیں اور ان میں فرشتوں کی خصوصیات انهیں کمال تک پهنچاتی هیں-
تا کدامین غالب آید در نبرد زین دوگانه تا کدامین برد نبرد
دیکھنا هے که اس جنگ میں کون سا عنصر کامیاب هوتا هے، یعنی حیوانی خصوصیات غلبه پاتی هیں یا فرشتوں کی خصوصیات-
پس انسان کی پیدائش میں فاعل کا مقصد اور آخری سبب بھی خدا کا فیاض هونا هے- خداوند متعال کے فیاض هونے کا لازمه یه هے که ممکنه کمال کی اس قسم کو بھی پیدا کرے، جو ممکنات میں سے سب سے برتر کمال هے-
ج۔ خدا نے انسان کو کیوں مکمل پیدا نه کیا؟
مذکوره مطلب کے پیش نظر معلوم هوتا هے که انسان کی پیدائش کا مقصد اس وقت حاصل هو سکتا هے، جب انسان میں کمال تک پهنچنے کی قابلیت موجود هو اور اپنے اختیاری عمل سے اسے حاصل کرلے- جبکه اگر وه پهلے سے کمال رکھتا هوتا تو هرگز وه اس کے لئے اختیاری کمال شمار نهیں هوتا اور اس کی پیدائش کا اصلی مقصد بھی حاصل نهیں هوتا-
قابل توجه بات هے که انسان کے لئے کمال کی راه میں ایک قدم بھی حاصل کرنا ، اختیاری کمال کو حاصل کرنا شمار هوتا هے اور اس نے اسی قدر پیدائش کے اصل مقصد کو حاصل کیا هے-
د۔ کافر اور گناهگار انسان:
اگر انسان کمال کی راه میں ایک قدم بھی آگے نه بڑھے اور اس کی پوری زندگی گناه و عصیان میں گزر جائے، تب بھی اس نے پیدائش کے مقصد سے آگے قدم نهیں بڑھایا هے، کیونکه اس نے اس صورت میں بھی اپنی قابلیتوں کو عملی جامه پهنایا هے- انسان تنزل کی پست ترین منزل تک پهنچنے کی بھی قابلیت رکھتا هے، اور پروردگار عالم نے اسے ایسے خلق کیا هے که وه کمال یا زوال کی راهوں میں سے کسی ایک کو منتخب کر سکتا هے پس گناهگار اور کافر انسان بھی خداوند متعال کے تکوینی اراده کے خلاف قدم نهیں بڑھاتا هے- بیشک خداوند متعال انسان کے کمال تک پرواز کرنے کو پسند کرتا هے اور گمراهی کی طرف اس کے تنزل کو پسند نهیں کرتا هے- به الفاظ دیگر، خداوند متعال نے انسان کی پیدائش میں ایک تکوینی اور تشریعی مقصد رکھتا هے: اس کا تکوینی مقصد یه هے، که هر انسان اپنی قابلیت کو عملی جامه پهنا سکتا هے ۔ خواه وه قابلیت اچھی هو یا بری- اس کا تشریعی مقصد یه هے که انسان صرف کمال کی راه میں اپنی قابلیتوں کو عملی جامه پهنائے-
اس بیان کے پیش نظر کها جا سکتا هے که ایک مومن انسان، تشریعی مقصد کو حاصل کر کے تکوینی مقصد کی راه میں بھی قدم بڑھاتا هے، لیکن کافر اور گناهگار انسان اگرچه تشریعی مقصد کو حاصل نهیں کرتا هے، لیکن پھر بھی تکوینی مقصد کی راه پر گامزن هوتا هے-
نوٹ: موضوع کی اهمیت اور اس سلسله میں بهت سی احادیث کی موجودگی کے پیش نظر، مزید بحث و تحقیق کرنے کی گنجائش هے-